فوری انصاف اورحکومت کاکام

 چیف جسٹس آف پاکستان نے ملک بھر میں کرپشن مقدمات کی جلد سماعت اور عرصہ دراز سے التواءمیں پڑے مقدمات کے جلد فیصلوں کیلئے120 نئی احتساب عدالتوں کے قیام کاحکم دیا ہے اور ایک ہفتے کے اندر پہلے سے قائم5 احتساب عدالتوں میں جج تعینات کرنے کا حکم بھی دیا ہے چیف جسٹس نے کرپشن کے مقدمات کا20‘20 سال التواءمیں رکھنے اور فیصلے نہ ہونے پر تشویش ظاہر کی اور اس طریقہ کار کو احتساب کے مقصد سے متصادم قرار دیا اب یہ گیند حکومت کے کورٹ میں ہے اور حکومت نے یہ ثابت کرنا ہے کہ اس کااحتساب کانعرہ محض الیکشن مہم تھی یا اس میں مخلص بھی ہے ہونا تویہ چاہئے تھا کہ سپریم کورٹ کو یہ حکم دینے کی ضرورت ہی نہ پڑتی نیب کی سفارشات پر حکومت ضرورت کے مطابق عدالتوں کی تعداد میں اضافہ کر دیتی لیکن یہاں صورتحال یہ ہے کہ پہلے سے موجود عدالتوں میں بھی ججز نہیں ہیں اور5 عدالتیں غیر فعال ہیں نیب کی کارکردگی ایک الگ موضوع ہے لیکن کم عدالتوں کی وجہ سے تمام مقدمات اور ریفرنسز کی سماعت ممکن ہی نہیں ہوتی اور ایک ایک مقدمے کو برسوں لگ جاتے ہیں اس سے ایک طرف تو ملزمان کو یہ کہنے کا موقع ملتا ہے کہ نیب کے پاس کوئی ثبوت ہی نہیں اسلئے فیصلہ نہیں ہوتا تو دوسری طرف عوام کا احتساب کے عمل پر اعتماد متزلزل ہو رہا ہے احتساب عدالتوں سے جو فیصلے آئے ہیں ۔

ان میں سابق وزیر اعظم نوازشریف کے دو مقدمات میں فیصلے بھی شامل ہیں ان میں سے ایک میں احتساب عدالت کے جج نے میاں نوازشریف کو7سات سال قید سنائی بھی جبکہ دوسرے میں بری کردیا تھا یہ فیصلے سنانے والے جج ارشد ملک کو بلیک میل کرکے فیصلہ حق میں کروانے والے بیشتر ملزمان گرفتار ہی نہیں ہوسکے مگر جج کی طرف سے اعتراف اور ویڈیو درست تسلیم کرنے کے بعد لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے ان کو برطرف کردیا ہے سابق جج ارشد ملک کا ان متنازعہ ویڈیوز کے حوالے سے بیان حلفی ریکارڈ پر ہے اور اس میں انہوں نے دباﺅ ڈالنے اور بلیک میل کرنے والوں کے بارے میں بھی بتا دیا ہے لیکن ان کی برطرفی کے بعد کئے گئے فیصلوں پر سوالیہ نشان آگیا ہے نوازشریف کا موقف ہے کہ ان کو سزا دباﺅ پر سنائی گئی اور اب انہوں نے سزا کے فیصلے پر نظرثانی کیلئے درخواست بھی تیار کرلی ہے جبکہ دوسرا موقف یہ بھی ہے کہ کسی دباﺅ اور بلیک میلنگ کی وجہ سے دوسرے مقدمے میں نوازشریف کو بری کیاگیا تھا اسی طرح ایک دوسری سیاسی پارٹی کی قیادت پر بھی سنگین نوعیت کے کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں لیکن ان پر بھی ابھی تک فرد جرم بھی عائد نہیں ہو سکی وجہ وکیلوں کے تاخیری حربے ہیں۔

 جس طرح آصف زرداری کے خلاف1996 میں دائر کئے جانے والے ریفرنسز کو انکے وکلاءلمبا کرتے رہے اور یہ2009/10 میں اس وقت فیصلے ہوئے جب آصف زرداری صدر تھے اور مقدمات کاریکارڈ بھی مبینہ طور پر گم ہوچکا تھا اس طرح فیصلوں پر شکوک برقرار ہیں ان کی پارٹی ان فیصلوں کو اپنی بریت ثابت کرتی ہے جبکہ اپوزیشن ان کو تسلیم نہیں کرتی اور الزامات سچ مانتی ہے عدالتوں میں تاخیر اور فیصلوں پر شکوک سے مرکزی سیاسی قیادت کا کردار بھی مشکوک ہوچکا ہے اسلئے ضروری ہے کہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق احتساب عدالتوں میں فیصلے ہوں تاکہ سچ اور جھوٹ واضح ہو سکے اگرچہ چیف جسٹس نے120 نئی احتساب عدالتیں قائم کرنے اور3 ماہ میںزیر التواءمقدمات اور ریفرنسز کے فیصلے کرنے کاحکم دیا ہے لیکن اس حکم پر عملدرآمد سے پہلے ہی ممکن ہے کہ متاثرہ فریق اس حکم کو انصاف کے خلاف قرار دیکر عدالت سے حکم امتناعی کی درخواست کردیں اور پھر ایک نئی آئینی نقاط کی بحث شروع ہو جائے یہ طے ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اور عوام جلد احتساب چاہتے ہیں حکومت کا دعویٰ بھی یہی ہے کہ وہ جلدازجلد کرپٹ لوگوں کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتی ہے اب یہ حکومت کے اختیار میں ہے کہ کتنی جلدی حکم پر عمل کرتی ہے اور اپنے وعدے اور دعوے کو پوراکرتی ہے۔