تعلیمی اداروں کو کھولنے کافیصلہ

 کو رونا نے ملک کا بہت کچھ نقصان کیا ۔ سب سے زیادہ نقصان تو تعلیمی اداروں اور طلباءکا ہوا۔ دن ایسے تھے کہ جب سکولوں میں پڑھائی عروج پر ہوتی ہے خصوصاً سرد علاقے والے سکولوں کے طلبہ دسمبر سے مارچ تک کی چھٹیاں گزار کر آئے ہوتے ہیں ااور اُن کے پاس یہی چند ماہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنانصاب مکمل کر سکیں اور امتحان کی تیاری کر سکیں۔ امتحانات عموماً مئی جون میں ہو جاتے ہیں اور یہاں یہ سارا عرصہ تو کورونا کی نذر ہو گیا ۔ ادھر حکومت نے بچوںکا سال بچانے کا اہتمام تو کیا مگر سال بچانا ہی مقصود نہیں ہوتا بلکہ نصا ب کی تکمیل بھی پڑھائی کا ایک بڑا حصہ ہوتا ہے ۔ جو بچے اس طرح ترقی پا کر اگلی جماعتوں میں جائیں گے ان کا اتنا بڑا نقصان ہو گیا ہو گا کہ جس کی تکمیل سالوں تک نہیں ہو پائے گی۔اگر بچوں نے نویں کانصاب مکمل نہیں کیا ہے اور وہ دسویں میں پروموٹ ہو گئے ہیں تو ان کے نصاب کا وہ حصہ کہ جو انہوں نے پچھلی جماعت میں مکمل کرنا تھاوہ نہیں کر سکے ا‘س کی کمی ان کو ہمیشہ محسوس ہو گی اس لئے کہ سلیبس جو بنائے جاتے ہیں تو ان کا ایک تسلسل ہوتا ہے ۔ اگر آپ ذرا سا بھی مس کرتے ہیں تو اس کمی کوساری زندگی پورا نہیں کر سکتے اس لئے کہ اگلی جماعتوں میںاس نصاب کا اگلا حصہ شروع ہو جاتا ہے جس کا انحصار پچھلی جماعت کے نصاب پر ہوتا ہے۔ اگر آ پ ایک دو سیڑھیاں چھوڑ کر اوپر جاتے ہیں تو ایسا کرنا آپ کو ساری عمر تنگ کرتا رہتا ہے۔ تعلیم تو ایک تسلسل کا نام ہے کہ جس کا ہر مرحلہ سوچ سمجھ کر طے کرناہوتا ہے۔

 تعلیم کو ہم لوگوں نے ایک کاروبا ر سمجھا ہوا ہے مگر ایسا ہے نہیں ۔یہ تو ایک ایسی عمارت کی طرح ہے کہ جس کا ہر” ردہ “ اوپر والے ” ردے “کا سہاراہوتا ہے آپ ایک ردہ چھوڑ کر اس سے اوپر کا ردہ لگا ہی نہیںسکتے تاہم یہ ایک ایسی مجبوری تھی کہ جس کا کوئی تدارک نہیں ہو سکتا۔ بچوں کا سال تو بچا لیا گیا ہے مگر بحیثیت ایک استاد کے مجھے اس بات کا احساس ہے کہ یہ سارے بچے جو ایک جماعت چھوڑ کر آگے بھیج دیئے گئے ہیں یہ ساری عمر اس کمی کو پورا نہیںکر سکیں گے اور ویسے بھی تعلیم ہماراکون سا ضروری عمل ہے۔ ہم جو دیکھتے ہیں کہ پڑھے لکھے بچے نوکریوں کے لئے دھکے کھا رہے ہیں تو یہی کہتے ہیں کہ اس پڑھنے سے نہ پڑھنا بہتر ہے اور اب تو مختلف محکموں کی جانب دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ پڑھ لکھ کر ڈگریاں حاصل کرنے سے بہتر تو یہی ہے کہ چار پیسے خرچ کئے جائیں ڈگریاں آسانی سے مل جاتی ہیں اور ان ڈگریوں پر نوکریاں بھی آسانی سے مل جاتی ہیںاورقومی اور صوبائی اسمبلی کی رکنیت تو ضرور مل ہی جاتی ہے اور اس کے بعد ہم اپنے زیر نگین لوگوں کی ڈگریاں جعلی قرار دینے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ جب سیاسی حکومتیں تھیں تو انہوں نے اپنے لوگوں کو سٹیل ملز اور پی آئی اے جیسے ادراوں میں گھسیڑا اور اُن کے لئے جعلی ڈگریوں کا بندو بست کیا اور اس کاتجربہ تو تھا ہی کہ جنرل مشرف نے جو قومی اور صوبائی اسمبلی کے لئے ڈگری کی شرط لگائی تو ہمارے بڑے لوگوں نے تھوک کے حساب سے جعلی ڈگریاں حاصل کیں اور ان کے ذریعے انتخابات لڑے اور اسمبلیوں کے رکن بنے۔ ان میں اب بھی بہت سے اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔

ایسے افراد ہمارے اراکین اسمبلی ہیں اور ان ہی لوگوں سے حکومتیں بنی اور اب ان کو معلوم ہے کہ کس طرح ڈگریاں حاصل کی جاتی ہیں اور کیسے ان پر نوکریاں ملتی ہیں اور اب جو تحقیق شروع ہوئی تو پی آئی اے جیسے ادارے میں پائلٹ تک کے لوگوں نے جعلی ڈگریوں پر ہوابازی کے لائسنس حاصل کئے ہیں اور کئی سالوں سے جہاز اڑا رہے ہیں۔ اب جو وزیر ہوا بازی نے تحقیقات شروع کیں تو پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہو گئی ہے۔ اپنے مشکوک پائلٹوں کو تو گراو¿نڈ کیا سو کیا ہمارے بہت سے پائلٹ دیگر ملکوں میں بھی جہازاُڑا رہے ہیں ۔ادھر جو ڈگریوں کا غلغلہ اٹھا تو ادھر بھی لوگوں نے پائلٹوں کو گراو¿نڈ کر دیا اور پی آئی اے کی پروازوں پر ہی پابندی لگا دی۔ یہ تعلیم کے مکمل نہ کرنے کی وجہ سے ہوا۔اب تو چلیںمجبوری ہے مگر جن لوگوں نے اس سے قبل جعلی ڈگریاں لیں اور نوکریاں بھی کیں تو اس کا زالہ کیا ممکن ہے ؟ اللہ کرے کہ اب کے بعد سارے محکموںمیں لوگوں کی ڈگریاں چیک کی جائیں اور جو جو بھی جعلی ڈگری ہولڈر ہو اسے نکال باہر کیا جائے اور جن لوگوں نے ان کو بھرتی کیا ہے اُن کا بھی محاسبہ کیا جائے تا کہ یہ قبیح عمل ختم ہو۔