مہنگائی کے اثرات

 مہنگائی ایسا عفریت ہے جس پر کبھی کوئی حکومت قابو نہیں پا سکی موجودہ حکومت نے تو شاید اس طرف توجہ ہی نہیں دی البتہ وزیراعظم جس چیز کی نایابی یا قیمت میں اضافے کا نوٹس لیں اس کی قیمت مزید بڑھ جاتی ہے چینی‘ آٹا اور پٹرول کو سستا کرنے کی کوشش میں روزمرہ باورچی خانے میں استعمال ہونے والی سبزیاں اور مصالحے بھی ہاتھ سے نکل رہے ہیں اوپر سے قربانی کے مذہبی فریضے کی ادائیگی سے پہلے ہی تاجروں نے ٹماٹر‘ لہسن اور ادرک جیسی اشیاءغائب کردی ہیں گزشتہ سال ٹماٹر300 روپے کلو تک گیا تھا اس سال پتہ نہیں کہاں تک جائے گا حالانکہ ابھی تک تو اچھے کھاتے پیتے خاندان بھی اس شش و پنج میں ہیں کہ قربانی کیسے کرینگے گزشتہ چار ماہ کے لاک ڈاﺅن اور کاروباری پابندیوں نے ہر کسی کو مالی طور پر متاثر کیاہے قوت خرید بہت کم ہوگئی ہے اس پر مستزاد قربانی کے جانوروں کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے شہروں کے قریب منڈیاں سج گئی ہیں اور بیوپاری محدود جانور لیکر گلی محلوں میں بھی گھوم رہے ہیں اس سے قیمتوں کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس بار سفید پوش طبقہ بھی قربانی دینے کی بجائے قربان ہونے والوں میں شامل ہو رہا ہے اگر اس وقت ٹماٹر ہی عام شہری کی دسترس سے باہر ہوگئے ہیں تو بکرا یا بیل کون خرید سکے گا اس معاملے میں مقامی انتظامیہ کا کردار اہم ہوتا ہے لیکن جب حکومت ذخیرہ اندوزوں اورمنافع خور مافیا کے آگ بے بس ہوں تو ضلعی انتظامیہ سبزی منڈی میں اجارہ داری کرکے اپنی مرضی کے نرخ لگانے والوں سے کیسے جیت سکتی ہے۔

 چینی مافیا کے بعد گندم مافیا نے بھی حکومت کو مجبور کرکے گندم برآمد کرنے کی اجازت لے لی ہے ایک ماہ پہلے خیبرپختونخوا میں20کلو آٹے کا تھیلا1000 روپے سے اوپر کا ہوا تو اس کی وجوہات تھیں ایک تو صوبے میں گندم کم پیدا ہوتی ہے اور اس وقت پنجاب سے درآمد بھی بند تھی جبکہ مقامی فلور ملز افغانستان کو بھی آٹا بھیجتی ہیں لیکن پورے ملک کو روٹی کھلانے والے پنجاب میں اگر20کلو آٹا 1100 روپے کا ہو جائے تو اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ کہیں نہ کہیں گڑ بڑہے اور اب10 لاکھ ٹن ڈیوٹی فری گندم درآمد کرنے کی اجازت کے پیچھے بھی قوم کی ہمدردی نہیں بلکہ فائدہ اٹھانا ہے اگرچہ پنجاب حکومت نے20کلو آٹے کا نرخ865 روپے مقرر کیا ہے۔

 لیکن یہ بھی چینی کی طرح ہی ہے سرکاری نرخ صرف اخباروں اور خبروں میں ہے دکانوں پر نہیں‘ حال یہ ہے کہ جن اشیاءکی قیمت حکومت مقرر کرتی ہے ان پر کوئی کنٹرول نہیں تو جانوروں کے نرخ پر کیسے کنٹرول کر سکتی ہے ویسے بھی دنیا میں گوشت والے جانوروں کی قیمتیں انکے وزن پر مقرر ہوتی ہے ہمارے ہاں ایک تو عید پرقربانی کے جانور عام دنوں سے ویسے ہی مہنگے ہو جاتے ہیں اور پھر قیمت کا تعین جانور کی خوبصورتی پر کیا جاتا ہے اسلئے منڈیوں میں بناﺅ سنگھار کے اہتمام پرزیادہ زور دیا جاتا ہے کسی جانور کے مالک پر کوئی یہ پابندی نہیں لگا سکتا کہ وہ اس کی کتنی قیمت لگائے یہ مالک اور خریدار کے درمیان سودا بازی پر منحصر ہے بیوپاری عام طور پر گاہک کی مالی حیثیت اور نفسیاتی کیفیت دیکھ کر قیمت بتاتے ہیں ہمارے ہاں بعض اوقات سیدھے سادے مسائل کو بھی پیچیدہ بنا دیا جاتا ہے عام طورپر ہمارے ہاں اونٹ‘ گائے‘ بیل‘ بکرا اور دنبہ کے ساتھ بھینس یا بھینسے کی قربانی بھی کی جاتی ہے زیادہ گوشت کی لالچ میں لوگ جوان بھینسے بھی قربان کرتے ہیں ۔ ان حالات میں حکومت کو چاہئے کہ ایس او پیز کے تحت اگر منڈیاں لگتی ہیں تو نہ صرف ایس اوپیز پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے بلکہ اگر کوئی اس طرح انتظام ہوجائے کہ جانوروں کے نرخ وزن کے حساب سے مقرر ہوں تو اس سے ایک مناسب راستہ نکل آئے گا ورنہ موجود حالات میں تو قربانی کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے ۔