پاکستان میں بہت سی پرانی آبادیوںکے کھنڈرات ہیں۔ ان کا مطالعہ کیاجائے تو ایک حقیقت سامنے آتی ہے کہ انسانوں کے لئے سہولتوں ، یعنی سر چھپانے کی جگہ کے ساتھ ساتھ اس بات کا بہت زیادہ خیال رکھا گیا ہے کہ انسانوں کے لئے صرف چھت ہی ضروری نہیں بلکہ ان کے لئے کھیت کھلیان کی کہ جہاں سے اُن کی روزی روٹی کا بندوبست ہو وہ اس سے بھی زیادہ ضروری ہیں۔ اس لئے کہ چھت کے بغیر تو انسان گزارہ کر ہی سکتا ہے مگر روٹی کے بغیرتوجینے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے جو بھی بستیاں بنائی گئیں وہ غیر زرعی زمینوں پر بنائی گئیں۔ یعنی اس کےلئے پہاڑوں اور پہاڑیوں کا انتخاب کیا گیا۔ اس کا ایک فائدہ تو یہ دکھائی دیتا ہے کہ دشمن کے حملوں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے یعنی دشمن پہلے ہلے میں ہی زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اور اُس کا دفاع بھی اچھی طرح سے کیاجا سکتا ہے۔ اس طرح کی بستیوں میں جو گھر بادشاہ یا راجہ کے لئے بنایا جاتا تھا وہ سب سے اونچی جگہ پر بنایا جاتا تھا تاکہ دشمن کے حملے کی صورت میں عوام اپنے راجہ کا دفاع کر سکیں ۔ اور دوسری بڑی بات یہ تھی کہ زرعی زمینوں کو بچایا جا سکے اس لئے کہ زرعی زمینیں ہی تو لوگوں کی روٹی روزی کا ذریعہ ہیں۔ اس کے بعد کی آبادیوں کو دیکھا جائے تو جو بھی گاو¿ں آباد کئے گئے ہیں اُن کے لئے غیر زرعی زمینوں کا ہی انتخاب کیا گیا ہے۔جن جن علاقوںمیں پہاڑ ہیں وہاں تو آبادیاں پہاڑوں پر ہی ہیں اور وادیوں کو زراعت کے لئے چھوڑاگیا ہے اور جہاں میدان ہیں وہاں بھی ایسی زمینوں کو مکانات کے لئے چنا گیا ہے کہ جہاں ناقابل کاشت اور بنجر زمینیں ہیں کوشش یہی ہوئی ہے کہ زرعی زمینوں کو بچایا جائے۔مگر اب بد قسمتی یہ ہوئی کہ لوگوں نے ہاو¿سنگ سوسائٹیاںبنا لی ہیں اور یہ سوسائٹیاں جہاں سے جگہ ذرا سستی ملتی ہے وہاں سے خرید کرمکانات کے لئے زمینوں کو فروخت کردیتے ہیں اس میں یہ خیال بالکل نہیں رکھا جاتا کہ زمین جو مکانات کے لئے چنی گئی ہے وہ زرعی ہے یا غیر زرعی ہے ۔
یوں لگتا ہے کہ جو ملک گندم اور دیگر فصلوں میں خود کفیل تھا اور چاول تو برآمد بھی کرتا تھا اب وہ ملک باہر سے خوراک درآمد کرے گا۔ اس لئے کہ بے تحاشہ لوگ زرعی زمینوں پر مکانات تعمیر کر رہے ہیں اورحکومتی اور نجی کمپنیاںدھڑ ا دھڑ زمینیں بیچ رہی ہیں اور جہاں گندم اور چاول کی پیداوار ہوتی تھی وہاں اب بڑی بڑی عمارتوں نے سر اٹھا ئے ہوئے ہیں ۔ ہمارے جیسے زرعی ملک میں کسی بھی میدانی علاقے کو بستیوں کی آبادی کے لئے استعمال نہیں ہونا چاہئے مگر کوئی اس طرف دھیان ہی نہیں دے رہا‘ نہ حکومت اور نہ ہی نجی مالکان ۔ مالکان کو تو ایک آسانی نظر آ رہی ہے کہ جو زمین چھ ماہ بعد فصل دیتی تھی اُس سے فوراً لاکھوں روپے نقد مل رہے ہیں تو کیا ایسی زمین کو اپنے پاس رکھا جائے ۔ مگر افسوس کہ یہ نہیں دیکھا جا رہا کہ جو پیسے وہ اپنی زمین کے لے رہے ہیںوہ تو سال نہ ہوئے تو دوسال ان کے پاس رہیں گے اور پھر ہاتھ خالی ہو جائیں گے جب کہ زمین ساری عمر کا ساتھ دینے والی شے ہے بلکہ یہ تو نسلوں تک ساتھ دیتی ہے اور بڑی بات یہ کہ ایک زرعی ملک کے لئے زرعی زمین کا ہونا بہت بڑی بات ہے۔ پورے پنجاب اور سندھ کی زمینیں تو سونا اگلنے والی زمینیں ہیں ان پر آبادیاں بسا کر حکومت کیا کرناچاہتی ہے۔ سوچنا چاہئے کہ ہمارے اجداد نے کیوں زرعی زمینوں کو بچا کے رکھا تھا اور اپنی بستیاں غیر آباد یا پہاڑی علاقوںمیں بسائی تھیں۔ وہ کوئی پاگل نہیں تھے اُن کو معلوم تھا کہ ایک زرعی زمین کی کیا قیمت ہو تی ہے۔ پہلے ہم پشاور جاتے تھے یا راولپنڈی جاتے تھے تو سڑک کے دونوں کناروں پر لہلہاتے کھیت دل کو اپنی طرف کھنچتے تھے مگر اب کو پشاور جاتے ہیں تو موٹر وے ہو یا جی ٹی رودڈ، ان کے دونوں طرف میلوں تک ہریالی کا نام ونشان نہیں ہے ۔ جدھر دیکھو مکانات بن رہے ہیں۔بستیاں بسائی جا رہی ہیں اور ان کھیتوں میں بھوک بوئی جا رہی ہے۔اس کا اندازہ کچھ عرصے بعد ہو گا۔