عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے صدر نے دنیا کو ایک بار پھر کورونا کی ہلاکت خیزی سے خبردار کیا ہے‘ گزشتہ روز جنیوا میں ادارے کے ہیڈ آفس میں بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اب معمول کی زندگی واپس آنے کا کوئی امکان نہیں‘ دنیا میں ایک کروڑ تیس لاکھ افراد متاثر ہوچکے ہیں‘ کروڑوں بھوک کا شکار ہیں‘ دنیا میں بے روزگاری کے ساتھ سیاسی عدم استحکام کا بھی خطرہ ہے‘ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کا انتباہ اس وقت آیا ہے جب دنیا میں 5 دن میں 10 لاکھ کورونا مریضوں کا اضافہ ہوا‘ امریکہ اور بھارت میںوائرس کی نئی لہر آئی ہے جبکہ جاپان میں امریکی فوجیوں میں بھی وائرس پھیل گیاہے جس کے باعث جاپان نے امریکی اڈوں کو بند کر دیا ہے‘ پاکستان میں دیکھا جائے تو وائرس کے پھیلاﺅ میں ٹھہراﺅ سا آیا ہے لیکن اس کی وجوہات مختلف ہیں‘ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ حکومتی اقدامات سے کمی ہوئی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے اقدامات صرف اعدادوشمار دینے تک ہی محدود ہیں اور یہ سرکاری لیبارٹریوں میں ہونے والے ٹیسٹ رپورٹس کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں جبکہ ایک بڑی تعداد نجی لیبارٹریوںاور ہسپتالوں سے ٹیسٹ کراتی ہے اور زیادہ تر گھروں میں ہی علاج کرتے ہیں‘ ہماری حکومت کی طرح عالمی ادارہ صحت بھی اس وائرس کے پھیلاﺅ کے روکنے میں بری طرح ناکام ہوا ہے اور اس کی کارکردگی صرف دنیا سے مریضوں کے اعداد وشمار جمع کرنا اور ان کی بنیاد پر نئی نئی ہدایات جاری کرنا ہی ہے‘ فرق صرف اتنا ہے کہ ہماری حکومت عوام کو لاک ڈاﺅن نرم کرکے سہولت دیتی ہے اور ساتھ ہی کورونا کمزور ہونے کی خوشخبری بھی۔
اس کے برعکس ڈبلیو ایچ او سخت لاک ڈاﺅن کرنے کی ہدایت کے ساتھ دنیا کو خوفزدہ بھی کرتا ہے کہ بیماری پھیل رہی ہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ہزار اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر ڈبلیو ایچ او کی کارکردگی کے بارے میں ان کا تجزیہ بالکل درست ہے‘ اب تو امریکہ نے اس ادارے کو خیر آباد کہنے کا بھی فیصلہ کرلیا ہے یہ ادارہ گزشتہ سال کے آخری مہینوں میں چین سے دریافت ہونے والے کورونا وائرس کی بروقت تشخیص اور اس سے بچاﺅ کیلئے دنیا کو آگاہ کرنے میں بھی ناکام رہا‘ یہ تو چین کے لاک ڈاﺅن پر ہی دنیا نے یہ طریقہ اپنایا‘ عالمی ادارہ صحت ابھی تک اس کا ماخذ دریافت کرنے میں بھی ناکام رہا ہے اور نہ ہی حفاظتی ویکسین یا موثر دوا تیار کرنے میں کامیابی ہوسکی‘ اسی وجہ سے دنیا میں کنفیوژن اور خوف بڑھا‘ افریقہ اور ایشیاءمیں غیر روایتی علاج کے باعث وائرس زیادہ پھیلا جس کو قابو کرنا مشکل ہوگیا‘ کورونا نے یہ باور کرا دیا ہے کہ دنیا انسانی جان بچانے کیلئے کس قدر بے بس ہے‘ سائنس کی ترقی اور ایجادات کا محور تباہی ہی رہا ہے یا خلا کو آلودہ کرنے کیلئے کائنات کی وسعتوں میں راکٹ اور مصنوعی سیارے بھیجنے کی دوڑ پر وسائل خرچ کئے گئے‘ جب کورونا پھیلنا شروع ہوا تو امریکہ جیسے ملک میں بھی ماسک تک نہیں تھے اور نہ ہی طلب کے مطابق وینٹی لیٹر موجود تھے‘ یہ بھی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ہی کوتاہی سمجھی جائے گی‘ کیونکہ اس کا کام ہی کسی نامعلوم اور نئی بیماری کے لئے پیشگی تیاریاں رکھنا ہے‘ کورونا کی ابتداءکئی سال پہلے ہوئی تھی‘ سارس کے نام سے انفلوئنزا نے خطرناک صورت اختیار کی تو سائنسدانوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اس کی ایک زیادہ خطرناک صورت بھی ظاہر ہوگی اس پر ہالی ووڈ نے فلمیں بنالیں مگر ڈبلیو ایچ او کچھ نہیں کرسکا‘ اب صورتحال یہ ہے کہ بیماری سے بچاﺅ کی کوئی دوا نہیں اور نہ ہی دنیا کو خوف کے ماحول میں زیادہ دیر بند رکھا جاسکتاہے ۔
اس کے لئے بہترین حکمت عملی پاکستان کی ہی مانی جا رہی ہے کہ حفاظتی اقدامات کے ساتھ لوگوں کو خوف کے ماحول سے نکالا جا رہا ہے کیونکہ خوف اور تنہائی انسان کی قوت مدافعت کمزور کرتی ہے اور کئی نفسیاتی بیماریاں بھی لگاتی ہے، عالمی ادارہ صحت کو بھی اپنا رویہ تبدیل کرکے خوف و ہراس پھیلانے سے اجتناب کرنا چاہیے‘ ویسے بھی دنیا میں اس ادارے کی کارکردگی پر غور کرنے اور اس کی افادیت جانچنے کا وقت آگیا ہے، امریکہ نے تو فیصلہ کرلیا، باقی دنیا بھی ایسا ہی کرے گی کیونکہ اس عالمی ادارے کی کارکردگی دنیا پر آشکارا ہوچکی ہے۔