نوکری میں عمرکی حد

 نوکری اور اس کے لئے عمر کی حد انگریز کی ساختہ ہے‘ انگریز نے اس ملک پر سالوںحکومت کی اور اس ملک کے لوگوں کےلئے جب نوکریوں کا رستہ کھلا تو انگریز نے اس کےلئے ایک حد رکھی تا کہ لوگ اس کے بعد آرام کریں اور ساتھ ہی ان کےلئے پنشن کا نظام بھی وضع کیا اس لئے کہ اگر ایک انسان ایک حکومت کی ایک حد تک خدمت کرے اور اس کے بعد وہ خدمت کے قابل نہ رہے تو اس کی خدمت کے صلے میںاُسے اتنی سہولت حکومت کی طرف سے ملے کہ وہ اپنی باقی زندگی اپنے بال بچوں کے ساتھ آسانی سے گزار سکے اور کسی کا محتاج نہ ہو‘ یہ بھی حکومت کا اُس کی خدما ت کے صلے میں ایک انعام ہے‘پاکستان بننے کے بعد یہ طریقہ ابھی تک رائج ہے کہ سرکاری ملازم کو اُس کی خدمات کے صلے میں اُس کی باقی زندگی میںآسانیاں پیدا کرنے کے لئے پنشن کا نظام باقی رکھا گیا ہے‘ اب اس حکومت میں کہ جہاں اسی اسی سال کے بوڑھے باقاعدگی سے دوسرے محکموں سے پنشن بھی لے رہے ہیں اور اس حکوت سے فائدے بھی اٹھا رہے ہیں اُن کو نئی نئی باتیںسوجھ رہی ہیں‘ آئی ایم ایف کی ایما پر بھرتی کئے گئے مشیران نے اب اُسی کے احکامات کی پیروی کرنی شروع کر رکھی ہے‘ کچھ عرصہ پہلے کہا گیا کہ سرو س میں عمر کی حد تریسٹھ سال کی جانی چاہئے تا کہ ملازمین کے تجربے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکے مگرپھر جو مشیروں نے گھیرا ڈالا تو اس سکیم سے ہاتھ اٹھالیا گیا‘ اس کے بعد ہر روز ایک نیا شوشا مشیروں کی جانب سے اٹھایا جا رہا ہے جن میں نوکریوں کے لئے عمر کی حد ساٹھ کی بجائے پچپن سال کرنا اور ملاز مین کو پنشن سے محروم کرناوغیرہ شامل ہیں۔

 جہاں تک پنشن کا تعلق ہے تو یہ اُن ملازمین کی سہولت کیلئے ہے کہ جو اپنی عمر کے ساٹھ سال کی حد کو پہنچنے تک حکومت کی خدمت کرتے رہے ہیں اور اپنی نوکری کی حد پوری کرنے کے بعد ریٹائر تو کر دیئے جاتے ہیں مگر اُن کو بڑھاپے میں باقی کی عمر کیلئے ایک سہولت دی جاتی ہے کہ وہ محتاج نہ ہوں بلکہ اُن کی خدمت اُن کی پنشن کو دیکھ کر کی جاتی رہے‘جب ایک شخص ساٹھ سال کی عمر تک سرکار کی خدمت کر تا ہے تو یہ اُس کا حق گردانا گیا ہے کہ وہ باقی کی عمر کسی کا محتاج نہ ہو‘ اس لئے اُس کو حکومت کی طرف سے ایک وظیفہ اُس کی باقی عمر کےلئے دیا جاتا ہے مگر اب ایسا شخص پنشن کے خلاف مشورے دے رہا ہے کہ جو نہ صرف بہت سی ملازمتوں کی پنشن لے رہا ہے بلکہ ملازمت بھی کر ر ہاہے یعنی پنشنوں کے علاوہ تنخواہ بھی لے رہا ہے اور تنخواہ بھی لاکھوں میں اور یہ تنخواہ ظاہر ہے کہ عوام کی ٹیکسوں ہی سے آتی ہے اور یہ حضرت عوام ہی کے خلاف منصوبہ سازی میں ملوث ہے‘ حکومتیں اپنے حالات او راپنے عوام کی بہتری کا سوچتی ہیں مگر یہ بات تو طے ہے کہ جس بھی حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض لیا اُس کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ حکومت عوام کی فلاح کےلئے کوئی بھی کام نہ کرے‘ یہ آج تک کے تجربے کی بنا پر ہم کہہ رہے ہیں صرف ایک حکومت نے آئی ایم ایف کے دباو¿کو جھیلنے سے انکار کیا تھا او روہ آصف زرداری کی حکومت تھی‘ اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ حکومت کا کام عوام کی حالت کو بہتر بناناہے اور اگر جیسا آئی ایم ایف حکم دے رہی ہے اس پر عمل کرنا تو عوام کے ساتھ ظلم کرنے کے مترادف ہے۔

 اسی لئے انہوںنے آئی ا یم ایف کی بات ماننے سے انکار کیا تھا‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئی ایم ایف وہ ادارہ ہے جس کے اپنے مخصوص مفادات ہیں اور یہ کسی ملک کا خیر خواہ نہیں بلکہ اپنے فائدے کیلئے یہ قرضے کی شکل میں ممالک کو پھانستا ہے اور پھراس قدر مجبور کردیتا ہے کہ وہ ممالک آئی ایم ایف کی پالیسی کے مطابق چلتے ہیں اور نہ ان کی اپنی خارجہ پالیسی رہتی ہے اور نہ معاشی پالیسی‘ وطن عزیز ایک وقت خودکفیل تھا‘ دوسرے ممالک کی غذائی ضروریات پورا کرتا تھا جبکہ بیرونی قرضہ نہ ہونے کے برابر تھا‘ اب بھی اگر کوشش کی جائے اور ایسی معاشی پالیسیاں تشکیل دی جائیں جن کا مقصد ملک کو خودکفیل بنانا اور اسے معاشی طور پر خوشحال اور مستحکم کرنا ہے تو آئی ایم ایف جیسے اداروں سے جان خلاصی کرنی ہوگی اور صرف اپنے اور اپنے مفادات کا خیال رکھنا ہوگا‘یہی اس مسئلے کا پائیدار حل ہے اور اسی سے ملک وقوم کی خوشحالی وابستہ ہے