ملک کودرپیش چیلنجز

 موجودہ حکومت کو اقتدار میں آئے دو سال ہونے ہیںمگر آج تک کوئی راہ متعین کرنے میںناکام ہی دکھائی دیتی ہے۔ آج تک تو جس کا نام حکومت کرنا ہوتا ہے وہ تو نظر نہیں آیا ۔ اس لئے کہ جب کوئی بھی حکومت اقتدار میں آتی ہے تو اُس کے سامنے ہمیشہ چیلنجز ہوتے ہیں مگر چند ہی دنوںمیں وہ ان چیلنجز کے ساتھ نمٹنے کےلئے منصوبہ بندی کر لیتی ہے اور پھر اس منصوبہ بندی پر عمل درآمد ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ چند ہی مہینوں میں راستوں کو تعین کر کے اپنے منشور کو آگے بڑھانے کا عمل شروع کردیاجاتا ہے اور اس کے مثبت نتائج آنا شروع ہو جاتے ہےں۔ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد ایک ہی بات کا پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ حکومتوں کا ہی رونا رویاجا رہاہے۔ ہم اگر دیکھتے ہیں تو گزشتہ حکومتوں میں بھی چھوٹے موٹے مسائل تو تھے تاہم کوئی بڑا بحران سامنے نہیں آیا خدا جانے اس حکومت کے چارج لینے کے بعد وہ ساری چیزیںکہاں چلی گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے آٹے اور چینی کی قیمتیں آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگیں۔ اب یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ چینی او رآٹا بھی سابقہ حکومتیں اپنے ساتھ لے گئیں یا اس حکومت میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جو حکومت کو چلنے نہیں دے رہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ جو کسی کے کہنے پر یا ہوا کا رخ دےکھ کر اچانک ہی پی پی پی اور ن لیگ کے ٹکٹ چھوڑکر پی ٹی آئی کے ٹکٹوں پر الیکشن لڑنے کو تیا رہو گئے تھے، ان میں ایسے خاندان بھی تھے کہ جو ایک زمانے سے ن لیگ یا پی پی پی کے پکے اراکین تھے۔ اب یہ بھی ممکن ہے کہ وہ لوگ آج حکومت کا حصہ بھی ہیں اور وزارتوں پر بھی براجمان ہیں۔

 دیکھا جائے تو یہ لوگ کافی تجربہ کار ہیںمگر کچھ ایسی غلطیاںکر رہے ہیں کہ جو حکومت اور ملک کے لئے انتہائی نقصان دہ ہیں بلکہ ملک کو بہت بڑا نقصان بھی پہنچا چکے ہیں ۔ مثال کے طور پرہمارے ہوا بازی کے وزیر صاحب نے نہایت ہی معصومی سے اور اپنی کار کردگی کا رعب ڈالنے کے لئے اسمبلی کے فلور پر کہا کہ پی آئی اے میں سینکڑوں پائلٹ جعلی ڈگریوں اورجعلی لائسنسوں پر کام کر رہے ہیں۔ اب یہ ایک ایسی سادگی تھی کہ جس نے ڈوبتے ہوئے قومی ادارے پی آئی اے کو سرے سے ہی ڈبو دیا۔ اب ایک جعلی پائلٹ کے ہاتھ میں جہاز دینے کا مطلب تو یہ ہے کہ ہم جان بوجھ کر لاکھوں زندگیا ںایک ناسمجھ کے ہاتھ میں دے رہے ہیں ۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ پوری دنیا میں پی آئی اے کے پائلٹوں کو حکومتوںنے اپنے جہازوں کو اڑانے سے روک دیا اور ان کو گراو¿نڈ کر دیا۔ ادھر پی آئی اے کے جہازوں کا یورپ ، انگلینڈ ، امریکہ اور دنیا کے دیگر ملکوںمیں داخلہ ممنوع قرار دیا گیا۔

 اس سے پی آئی اے اور ملک کو جو نقصان ہو اس کا ندازہ ہر پاکستانی لگا سکتا ہے۔ وہ پی آئی اے جو پہلے سے نقصان میں جا رہا تھا اس سادہ سی تقریر نے ملک کو اربوں کا نقصان پہنچا دیا گیا۔ کیا یہ انجانے میں کیا گیا یا جان بوجھ کر کیا گیا اس لئے کہ وزیر موصوف کی یہ تیسری پارٹی ہے کہ جس میں انہوں نے وزار ت حاصل کی ہے۔ اور کہتے ہیں کہ سابقہ تعلقات سے جان چھڑانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ لوگ جو دوسری جماعتوں سے پی ٹی آئی میں عین الیکشن کے دنوں میں داخل ہوئے ہیں اُن کے اندر سے پرانے تعلقات کے ختم ہونے میں وقت تو لگے گا اسی لئے موجودحکومت ابھی تک کوئی پراگرس دکھانے کے قابل نہیں ہو سکی۔اس میں کوئی شک نہیں اور اس کا اعتراف حزب اختلاف کے لیڈربھی کرتے ہیں اور دنیا کے لیڈر بھی اس بات کے معترف ہیں کہ عمران خان ایک دیانت دار اور محب وطن لیڈر ہےں۔ یہ بھی کہ عمران خان ملک کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتے ہےں مگر کہتے ہیں کہ حکومت کا کام ایک شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی ۔ یہ کام مل کر کیا جاتا ہے اسی لئے اس کے لئے ٹیم چنی جاتی ہے ۔ اب یہ ٹیم کے ممبروں کا کام ہے کہ وہ بال کو دوسری ٹیم کے گول تک لے جا کر گول کرتے ہیں یا اپنے ہی گول کے جال میں بال پھینکتے ہیں۔