جیسے موت کی سزا پاجانے والے تین مجرم عین اس لمحے فرار ہو جائیں جب ان کے گلے میں پھانسی کا پھندہ ڈالنے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہوں... جیسے وہ تقریباً موت کے منہ میں جاچکے ہوں اور وہ انہیں نگلنے کو ہو تو وہ بچ نکلیں‘ جیسے وہ فنا کی تاریکی میں گم ہو جانے کو ہوں اورجس کے ہاتھ میں فنا اور بقاءہے‘ وہ فیصلہ کرے کہ نہیں ابھی نہیں‘ ابھی انہیں حیات کی روشنی میں لے جایا جائے‘ ایسے اس شب ہم تینوں تھے جو موت کے قربت کے تجربے بیان کرتے ایک مرگ داستان کے قصہ گو تھے...طارق سلطان‘ مدیحہ گوہر اور میں!طارق میرا ایک دیرینہ دوست اور مداح ہے...ساہیوال کا رہنے والا ہے...بے مثل شاعر بشیر احمد بشیر کا بیٹا ہے جو مجید امجد کے قریبی دوستوں میں سے تھے‘ حاجی بشیر کے بیٹے مختلف مزاجوں اور عقیدوں کا ایک عجائب گھر تھے‘ ان میں ایک آوارہ گرد تھا‘ شمال کے مسافتوں کے درمیان متعدد بار مرتا مرتا بچا...پھر ایسا بنیادپرست ہوا کہ ” طاغوتی طاقتوں والے لڑنے کیلئے گھر سے نکل کھڑا ہوا...حاجی صاحب کا ایک بیٹا منیب کمال کا گائک‘ گہری پرسوز آواز...اپنے والد اور مجید امجد کا کلام گاتا تو ان کے شعروں کی ہر بار تفسیر جدا کرتے... ہیرکے حسن کا قصہ الاپتا تو وارث شاہ کی جانب سے بھی” واہ سبحان اللہ“ کی سرگوشی سنائی دیتی...اور طارق سلطان دوستوں کے ساتھ محفلیں آباد کرنے کا شوقین‘ اردو ادب کا شیدائی‘ حق سچ کی تلاش میں گم ‘ اس کے دوستوں میں بھانت بھانت کے لوگ تھے...فلسفی‘ تاریخ دان‘ باریش مولانا‘ موسیقار وغیرہ...اس کی بیوی غزالہ نے اپنی آدھی زندگی اسکے دوستوں کی مدارت میں گزاری اور بقیہ آدھی زندگی ایک بچے کی مانند اس کا دھیان رکھتی اسے پالتی رہی...
دونوں‘ فلسفی میں ایم اے کر رکھا تھا اور اپنے قدیم ہم جماعتوں کے ساتھ ابھی تک ایک خاندان کی صورت قربت قائم رکھے ہوئے تھے‘ یہ سب جمع ہوتے‘ اب تک بیشتر بوڑھے ہو کر دادا‘ نانا اور دادی نانی ہو چکے‘ جمع ہو کر خوب ہلا گلا کرتے...پرویز نوازی پیانوبجانے لگتا اور وہ اپنے زمانوں کے گیت گانے لگتے...یاد کیا دل نے کہاں ہو تم...انہوں نے تنگ نظری اور تعصب سے الگ ہو کر ایک اپنا جہان آباد کرلیا تھا‘ میں ان پر بہت رشک کرتا ...ان میں پرویز فلسفے کا شیدائی اور کسی حد تک قنوطی...مطیع الرحمن دست شناس جو ان مولانا کا بیٹا تھا جن سے میں نے قرآن پڑھا تھا...نبیلا کیانی‘ ایک پروفیسر اور وسیع النظر خاتون‘ اکرم وڑائچ اور اس کی بیگم‘ پیپلز پارٹی والا انقلابی جو تائب ہو چکا تھا راجہ انور‘ جہلم کا پروفیسر نظامی جو میرے ہمراہ نانگاپربت کا دیدار کرنے کیلئے گھر سے نکلا تھا...موسیقی کے نقاد اور جانے کیا کیا بھانت بھانت کے لوگ اس کے یار تھے... تقریباً تین ماہ پیشتر طارق سلطان سے فون پر بات ہوئی تو میں نے پوچھا اور کیا حال ہے...کہنے لگا تارڑ صاحب...میں بولا ہوچکا ہوں...تقریباً بہرہ ہو چکا ہوں اور ان دنوں مجھے کینسر لاحق ہوچکا ہے‘ دن رات مشینوں میں سے گزرتا ہوں...کیمیوتھراپی سے منہ میں چھالے پڑ گئے ہیں‘ بال پہلے ہی کم تھے‘ جتنے بھی تھے وہ جھڑچکے ہیں...آپ کا ناول” خس وخاشاک زمانے“ پڑھتا رہتا ہوں ظاہر ہے میں ایک صدمے سے دوچار ہوا لیکن طارق کی آواز میں مجال ہے کوئی کوف یا ہراس ہو...‘ کہتے ہیں کہ ٹھیک ہو جاﺅں گا‘ نہ ہوا تو مر جاﺅں گا‘ کیا فرق پڑتا ہے... میں بہت فکر مند ہوا‘ بار بار غزالہ کو فون کرکے اس کے بارے میں دریافت کرتا اور وہ یہی کہتی‘ تارڑ صاحب...ابھی اس کا ایک اور سکین ہوا ہے‘ فلاں کینسر وارڈ سے باہر آرہی ہوں... آج اس کی چوتھی کیمیوتھراپی ہے...وہ کچھ زیادہ پرامید نہ تھی...پچھلے ہفتے طارق کا فون آیا...میں لاہور آرہا ہوں...
آپ سے اور دوستوں سے ملنے...فی الحال تندرست ہوگیا ہوں...اس شام طارق کے گھر میں اس کا دیپال پوری دوست وٹو موجودتھا اور پھر کیا دیکھتا ہوں کہ شاہد محمود ندیم اور مدیحہ گوہر چلے آرہے ہیں...مدیحہ کے بال چھدرے ہو چکے تھے لیکن وہ چہک رہی تھی‘ پاکستان میں سب سے بڑے تھیٹر گروپ‘ اجوکا تھیٹر کی بانی‘ کراچی سے آئی تھی جہاں اسکے تھیٹر نے فیض صاحب اور ایلس فیض کے خطوط کے حوالے سے ایک ناٹک کیا تھا‘ نعیم طاہر اور یاسمین طاہر کی آوازوں نے فیض اور ایلس کے درمیان جو محبت اور نظریاتی بندباندھے تھے ان کو آواز اور رقص کی صورت زندہ کیا تھا...مجھے یقین نہ آتا تھاکہ یہ مدیحہ ہے جو میرے سامنے بیٹھی ہے‘ وہ تو مرگ کے جھولے میں بیٹھ چکی تھی‘ اسکے متعدد آپریشن ہوچکے تھے‘ کینسر اس کے بدن میں پھیل چکا تھا...ایک ہفتہ وہ مصنوعی تنفس کے سہارے سانس لےتی تھی...ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا اور وہ میرے سامنے بیٹھی چہک رہی تھی‘ ابھی کل کی بات ہے جب میں نے اس کی بیماری کی کبر پا کر شاہد کو فون کیا تھا اور وہ انتہائی نگہداشت کے وارڈ کے باہر کھڑا ناامید سا ہواجاتا تھا...میں مدیحہ گوہر کو تب سے جانتا تھا جب وہ کالج میں پڑھتی تھی اور اسے انور سجاد کے تحریر کردہ سیریل ”سورج کو ذرا دیکھ“ کیلئے محمداختر حسین کو کاسٹ کیا تھا‘ قوی خان‘ ہیروتھا اور میں نے ایک ولن کا کردار اداکیا تھا بعدازاں ہم نے” سالگرہ کا تحفہ“ نامی کھیل میں میاں بیوی کا کردار نبھایا تھا... چنانچہ ہماری شناسائی کے زمانے بہت طویل تھے...چنانچہ وہاں ہم تین تھے‘ موت سے فرار ہوچکے مجرم...اگر چہ ان کی نسبت میں خوش نصیب تھا‘ بے شک موت کی قربت میں گیا اور لوٹ آیا لیکن مجھے کینسر تو نہ تھا...وہ دونوں خاص طورپر مدیحہ جن آزمائشوں اور اذیتوں سے گزرے ان کا کچھ شمار نہیں...ہم اس شب اپنی اپنی مرگ داستان بیان کرتے رہے...لیکن ہم مایوس نہ تھے‘ امید کی آخری کرنوں کو سمجھائے ہوئے تھے‘ کیا موت کی قربت انسان کو بدلتی ہے... اس کے نظریات اور عقائد میں کچھ فرق آتا ہے..تب کون یاد آتا ہے...ماں باپ بہن بھائی‘ خدا یا کون...جب موت آپ کو یاد کرتی ہے تو آپ کو کچھ یاد نہیں آتا‘ سوائے زندگی کے...ہم تینوںکو کچھ مہلت مل گئی تھی...ہم ایسے تین مجرم تھے جو موت کے گھاٹ پر اترے اور پھر اذن ہوا کہ نہیں ابھی نہیں‘ پھر کبھی سہی...ابھی تمہارے لئے کچھ سورج باقی ہیں...