وقت وقت کی بات

 ملکوں کے معاملات یا گھروں کے معاملے وقت کے ساتھ بنتے بگڑتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان میں ہر سو امن ہی امن تھا۔ کچھ لٹیرے یا ملاوٹی جو پاکستان کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے تھے وہ ایک مارشل لاءکی نذر ہوئے اور ملک میں امن و امان قائم ہو گیا۔ جب ملک میں امن ہوتا ہے تو حکومتیں پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا کرتیں بلکہ وہ آگے کا سوچتی اور اس پر عمل کرتی ہیں۔ یہی ہوا کہ مارشل لاءکے بعد جو امن ہوا تو حکومت کو موقع ملا کہ وہ ملک کو آگے لے جائے چنانچہ اس دور میں ایک تو مارشل لا ءایڈمنسٹریٹر نے ایک بہت ہی فعال ٹیم کا چناو¿کیا۔ اگر اس وقت کی کابینہ کو دیکھتے ہیں تو بہت بڑے بڑے نام اس میں شامل تھے ۔ جنہوں نے اس ملک کو معاشی ترقی کی طرف گامزن کیا ۔ یاد رہے کہ یہ وہ وقت تھا کہ ملک میں نہ کوئی صنعت تھی اور نہ کوئی زراعت کو آگے بڑھانے کا کوئی ذریعہ تھا۔ مگر جو ٹیم ایوب خان کے گرد جمع تھی وہ خالص پاکستانی تھے اور جن کی سوائے پاکستان کی ترقی کے کوئی دوسری سوچ نہیں تھی۔ یہ بھی یاد رہے کہ ان کو مہاجرین کی آباد کاری اور ایک بڑے قحط کا بھی سامنا تھامگر حکومت نے سب سے پہلے قحط زدہ معیشت کا سوچا اور ملک میں گندم کا ایک نیا بیج متعارف کروایا جس کو میکسی پاک کہا جاتا تھا اس کی وجہ سے گندم کی پیداوار میں یک دم اضافہ ہوا اور اسی طرح چاول کے بھی نئے بیج متعارف کروائے گئے جس سے چاول کی پیداوار میں بھی اس حد تک اضافہ ہوا کہ ملک نہ صرف خوراک میں خود کفیل ہوا بلکہ برآمد بھی کرنے لگا ملک میں چھوٹے بڑے ڈیم بنائے گئے جن سے زراعت کو ترقی ملی ۔

اس کے ساتھ ساتھ صنعت کی جانب بھی توجہ دی گئی ‘ کراچی اور لاہور میں مختلف صنعتیں لگائی گئیں جس سے لوگوں خاص طور پر مہاجرین کی آبادکاری میں بہت مدد ملی۔ کراچی کیونکہ ملک کا دارلخلافہ تھا اس لئے اس میں صنعتی ترقی کی طرف توجہ دی گئی۔اسی دوران یہ بھی ہوا کہ کراچی کے دفاعی لحاظ سے کمزور ہونے کی وجہ سے دارالخلافہ اسلام آباد منتقل کر دیا گیا اور یہ حکمت عملی کچھ ہی دنوں بعدہندوستان کی طرف سے حملہ نے مناسب ترین ثابت کر دی۔ ہندوستان کے حملے نے ایک بات اور ثابت کی کہ جب تک ملک میں دفاعی پیداوار کے کارخانے نہیں لگیں گے تو بات نہیں بنے گی۔ چنانچہ چین کی مدد سے ٹیکسلا میں دفاعی پیداوار کے کارخانے بھی لگائے گئے دیکھایہ گیا ہے کہ جوں جوں ایک ضرورت کا انکشاف ہوتا گیا اُس کےلئے انتظام بھی ہوتا گیا مگر اس کےلئے جو بہت ضروری بات ہے وہ امن ہے۔ اگر ملک میں گڑ بڑ ہو تو پھر کسی دوسری طرف توجہ دینا ممکن ہی نہیں۔ چنانچہ اسی امن کے سبب ملک میں ڈیم بھی بنے، کارخانے بھی لگے اور جوجو ضرورت کی چیز تھی وہ ساتھ ساتھ ہوتی چلی گئی اور اس کےلئے اپنے ہی وسائل کو بروئے کار لایا گیا۔ جب ایوب خان کا صدارتی دور ختم ہوا تو ملک کو ایک اور جنگ کا سامنا کرنا پڑا مگر اس دفعہ ایوب خان کے ہاتھ میں فوج کی کمان نہیں تھی جس کے وجہ سے بہت کچھ ہو گیا ۔ اس کے بعد کے حالات تو اس قدر خراب رہے کہ کسی کو صنعتی یا زرعی ترقی کی طرف توجہ دینے کا بھی موقع نہ ملا ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ہوا کہ جمہوری حکومت کے کار پردازوں نے اپنے ووٹوں کی خاطر گھر گھر بجلی پہنچائی مگر بجلی کے اضافے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اس سے بجلی کی شارٹیج تو ہونی ہی تھی۔

 چنانچہ ادھر یہ شارٹیج سامنے آئی اور ادھر روس نے افغانستان پر حملہ کر دیا ۔ وجہ کوئی بھی ہو پاکستان کے لئے ایک خطرے کی گھنٹی بج گئی جس کو روکنے کے لئے پاکستان نے بھی افغانستان کے دفاع میں اپنا کردار ادا کیا۔اور اس کردار نے ملک میں دہشت گردی کو جنم دیا جس کا دفاع کرتے ہوئے تین چار حکومتیں تبدیل ہوئیں ۔ اس میں جب بجلی کی ضرورت نے زور پکڑا تو یہ وقت ایسا نہیں تھا کہ کوئی پن بجلی کا سوچتا، اس لئے اس وقتی ضرورت کے لئے جو کچھ ہو سکتا تھا وہی کیاگیا ۔بجلی بنانے کے لئے تیل اور گیس کے یونٹ لگائے گئے اس لئے کہ اس بد امنی کے دور میں یہی کچھ کیا جا سکتا تھا۔ اب اس حکومت کا فرض یہ ہے کہ پچھلی حکومتوں کو لعن طعن کرنے کی بجائے ملک کوآگے کی طرف لے جائے۔