اوراب تو رات کو جلدی سونا ایک خواب ہی بن کر رہ گیا ہے ،روزمرہ کی مصروفیات نے دن اور رات کا فرق ختم کر ڈالا ہے،کبھی سر شام پرندوں کی طرح یار لوگ گھروں کی طرف چل پڑتے تھے، اب تو بہت سے بے فکرے شام کے بعد ہی گھروں سے نکلتے ہیںاور رات کا نصف سے زیادہ وقت باہر گزارتے ہیں، ایسا نہیں کہ پہلے ایسا نہیں ہوتاتھا، تب بھی بعض منچلے دیر سے گھر پہنچتے تھے اور پھر گھر میں باز پرس کا ایک ہنگامہ بپا ہو جاتا تھا ‘ مزے مزے کے چٹکلے بھی سامنے آتے تھے۔ جیسے ایک بچے نے جب ماں سے کہانی سنانے کی فرمائش کی تو ماں نے کہا کہ بیٹا بس تھوڑی دیر اور انتظار کر لو ابھی آپ کے پاپا آجائیں گے اور ایک نئی کہانی سنائیں گے میں بھی سنوں گی تم بھی سن لینا، میرے ایک دوست اپنے اوائل شباب کی ایک رات کے بارے میں بتا رہے تھے کہ جب میں دیر سے گھر پہنچا تواچانک والد صاحب کی آواز گونجی اب آرہے ہو،کیا وقت ہوا ہے میں نے کوئی بہانہ بناتے ہوئے کہا کہ جی ایک بج رہا ہے، بد قسمتی سے اسی وقت گھر کے گھڑیال نے ٹن۔ٹن۔ٹن تین بجائے تو میں نے بدحواسی میں بہ آواز بلند گھڑیال کو مخاطب کر کے کہا۔ ” معلوم ہے کہ ایک بج گیا ہے‘اب تین بار بتانے کی کیا ضرورت ہے‘ دیر سے آنے والوں کے ساتھ اس طرح کی کوئی نہ کوئی ایکٹی ویٹی ہوتی رہتی، ابن انشاءنے بھی دیر سے گھر آنے سے منع کرتے ہوئے شاعرانہ انداز اپنایا ہے۔
شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا زنجیر پڑی دروازے پر
کیوں رات گئے گھر آئے ہو،سجنی سے کرو گے بہانہ کیا
حالانکہ دیر سے آنے والوں کو سجنی کی بجائے سخت مزاج ہیڈمسٹریس سے واسطہ پڑتا ہے، سارا شاعرانہ مزاج دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے، اس لئے محتاط( ڈر پوک قطعاََ نہیں) شوہرگھر میں مہا بھارت کی روک تھام کے لئے بر وقت گھر پہنچتے ہیں مجھے یاد ہے کہ اسّی کی دہائی کے وسط میں ایک شام ، یوسف کامران یونیسکو کی ادبی ورکشاپ میں شریک کچھ دوستوں کو قتیل شفائی،حبیب جالب اور کچھ اور ادبی دنیا کے بڑے لوگوں سے ملانے لاہور کے پاک ٹی ہاﺅس لے آیا تھا، میں بھی اس گروپ میں شامل تھا، قتیل شفائی اور حبیب جالب کی میز پر ہم پہنچے ہی تھے کہ مقامی کالج کے کچھ لڑکے قتیل شفائی کو لینے آگئے، اس رات مشاعرہ کی صدارت انہوں نے کرنا تھی، قتیل شفائی نے ان سے کہا کہ آپ حبیب جالب کو دعوت دیں اور میں ان مہمانوں سے دو باتیں کر لوں گا‘ حبیب جالب نے یہ سن کر دونوں ہاتھ منع کرنے میں ہلاتے ہوئے کہا، الحمد للہ شام کے بعد میں کسی کو جانتا ہی نہیں ہوں اور کچھ اس انداز سے کہا کہ ایک بھرپور قہقہہ پڑا اور چار دہائیوں کے بعد اب بھی مجھے یاد ہے،اس وقت تو ہم نوادران ِ ادب کو زیادہ علم نہ تھا مگر اب سوچتا ہوں کہ شام کے بعد مشاعروں میں نہ جانے کے ڈانڈے بھی گھر کی فضاءکو خراب ہونے سے بچانے سے جا ملتے ہیں، حالانکہ مشاعروں کا تو وقت شروع ہی شام کے بعد ہوتا ہے، پشاور کے ایک شاعر دوست کا دل بھی رات کو گھر سے باہر کم کم ہی لگتا تھا اس لئے ان کا یہ قول ان دنوں دوستوں میں ” وائرل“ ہو چکا تھاکہ یار خبر نامہ سے پہلے گھر پہنچنا ضروری ہے اور ظالم نے یہ گرما کے ایسے موسم میں کہا تھا جب شام آٹھ بجے ہوتی تھی‘ یہ زمانہ ٹیلیویژن کے اکلوتے سرکاری ٹی وی کے عروج کا زمانہ تھا اور رات نو بجے نشر ہو نے والی خبروں کو ” خبر نامہ “ کہتے تھے۔
جسے اکثر ” صدر نامہ“ کہا جاتا تھا اور ایک شاعر نے تو ایک انٹرویو میں پو چھے گئے اس سوال کے جواب میں کہ ” آپ کو ٹی وی کا کو نسا ڈرامہ پسند ہے؟ “ کہا تھا ” مجھے ڈراموں میں خبر نامہ سب سے زیادہ پسند ہے، مستقل مزاج یار لوگوں کو اب بھی ، جب کہ چھوٹی سکرین پر کئی کھڑکیاں کھل گئی ہیں ، بطور ڈرامہ خبر نامہ ہی پسند ہے، خیر اسے ایک جملہ معترضہ سمجھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ،بات رات کو دیر سے گھر جانے اور ” سجنی “ کی ہو رہی تھی، شنید ہے کہ ایک چائے خانہ میں رات گئے جب سب لوگ چلے جاتے تھے تو دو لوگ الگ الگ میزوں پر اس وقت تک بیٹھے رہتے تھے جب تک چائے خانے کی لائٹس ایک ایک کر کے بجھنا شروع نہیں ہو جاتیں،پھر بادل ناخواستہ اٹھتے تھے‘ ایک شب ان میں ایک صاحب دوسرے کی میز پر گیااور ادھر ا±دھر کی چند باتوں کے بعد کہا کہ آپ بھی میری طرح بہت دیر سے گھر جاتے ہیں ،تو عام طور پر بیگم سے کیا بہانہ کرتے ہیں؟ ان صاحب نے کہا ، میری تو ابھی شادی ہی نہیں ہوئی“ یہ سن کر وہ صاحب اس کی میز سے اٹھے اور غصّے سے کہا، عجیب آدمی پھر وقت پر گھر کیوں نہیں جاتے، ایسے ہی موقع کے لئے شیخ ابراہیم ذوق نے کہا تھا
رند ِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ ت±و
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ ت±و
اب دیر یا سویر سے گھر جانے کا شادی کرنے یا نہ کرنے سے کچھ نہ کچھ تعلق ضرور بنتا ہے میں نے محمد طفیل کے نقوش کے شوکت تھانوی نمبر میں کہیں یہ پڑھا تھا کہ جب ان کی اپنی (یا روز شام کے بعد کی محفل میں بیٹھنے والے کسی دوسرے دوست ) کی شادی کے بعد جب محفل تا دیر جمی رہی تو تنگ آکر شادی شدہ دوست نے ایک جماہی لیتے ہوئے کہا اچھا یارو میں چلتا ہوں، مگر دوستوں نے جب رکنے پر اصرار کیا تو زچ ہو کر بولے۔” اب میں آپ لوگوں کی طرح فالتو تو ہوں نہیں “ اس پر کسی دوست نے برجستہ کہا ” جی جی آپ جائیے آپ ’ فالتو نہیں “ اب آپ ’ پالتو ‘ ہیں، بہرحال بقول فراز ” کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی “ مگر یہ سچ ہے کہ ایسا ایک دور میرے نسل کے لو گوں نے دیکھا ہے،تب حجرے بھی آباد تھے لیکن ایک خاص وقت کے بعد لوگ گھروں کو لوٹ جاتے تھے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہیں صبح سویرے نہ صرف جاگنا بلکہ کام پر جانا ہو تا تھا اور کسانوں کے بارے میں تو کہا جاتا تھا کہ ہل چلاتے ہوئے وہ اپنے بیل کے سینگوں کے درمیان سے سورج کو نکلتا دیکھتے تھے‘ خیر اب تو یہ سب کام مشینوں کے سپرد ہو گئے، کل تک سحر خیزی ایک معمول کی سرگرمی تھی مگر اب خال خال ہی سحر خیز رہ گئے ہیں، اب رات کو دیر سے گھر آنا بھی کم کم لو گوں کی عادت ہے۔
کیونکہ وہ گھر میں ہوتے ہوئے بھی گھر میں نہیں ہوتے،ہر شخص کے ہاتھ میں چھوٹی سی ڈیوائس ہے اور اسی میں وہ کھویا ہوا ہے، وباءکے دنوں میں بظاہر تو لوگ نظر بند ہیں وہ اصل میں اسی ننھی سی ڈیوائس کی قید میں ہیں جسے مو بائل کہتے ہیں ، تیز رفتار وائی فائی کی سپیڈ بہت کم ہو کر رہ گئی ہے شکایت کے جواب میں کہا جاتا ہے لاک ڈاو¿ن کی وجہ سے لوگ گھروں میں نظر بند ہیں اور نیٹ کا استعمال بڑھ گیا ہے‘ گھروں کی لائٹس آف ہو تی ہیں مگر تین پہر رات تک اس ڈیوائس کے جگنو جل بجھ کر رہے ہوتے ہیں، اب سحر خیزی بھی اسی طرح خیال و خواب ہوئی جس طرح رات کو جلدی سونا ایک خواب ہی بن کر رہ گیا ہے،جلدی سونے اور جلدی جاگنے سے رزق میں کشادگی کا ایک قول سوشل میڈیا پر کسی نے پوسٹ کیا تو میرے دوست ِ عزیز ڈاکٹر واجد علی نے اس پر تبصرہ کیا کہ یہ تب کی بات ہے جب جاب پر رات کی شفٹ کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ مجھے اس پر شاعر دوست تنویر سپرا یاد آ گئے جس نے کہا ہے۔
رات کی شفٹ چلا کر مجھ کو خوابوں سے محروم کیا
میرے آجر نے میری فطرت پر ڈاکہ ڈالا ہے