امریکی سنار نے دس لاکھ ڈالر (پاکستانی 16 کروڑ روپے) کے زیورات زمین میں کئ مقامات پر چھپادیئے ہیں اور لوگوں کو ٹکٹ فروخت کرکے ان کی شناخت میں مدد دینے والے کچھ اشارے دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ جو اس خزانے کو نکالے گا وہی اس کا مالک بھی ہوگا۔
مشی گن کے جوہری جونی پیری کا کاروبار کورونا وبا سے شدید متاثر ہورہا تھا اس لیے انہوں نے دکان بند کرنے اور 10 لاکھ ڈالر کے زیورات و جواہرات سے رقم کمانے کا سوچا۔ زیورات کو انہوں نے درجن بھر مقامات پر زمین میں چھپایا ہے اور وہ اس کے اشارے ٹکٹ کے ذریعے مختلف لوگوں کو فروخت کرکے رقم کمانا چاہتے ہیں۔
یہ زیورات انہوں نے ڈیٹرائٹ کے شہری علاقے سے لے کر سمندر کنارے پر چھپائے ہیں۔ اب انہوں نے لوگوں کو چیلنج کیا ہے کہ وہ اپنی قسمت آزمائیں اور تلاش کرکے خزانے کے مالک بنیں۔ جونی کہتے ہیں کہ انہوں نے دس لاکھ ڈالر سےزائد کی قیمتی دھاتیں زمین میں دفن کی ہیں، جن میں سونا چاندی، پلاٹینم، ہیرے، جواہرات اور قدیم نوادرات بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر مدفن شے سے کوئی نہ کوئی یاد اور تاریخ وابستہ ہے۔
اس کھیل کو انہوں نے جونی ٹریژر کوئیسٹ کا نام دیا ہے۔ خزانے کو پانے کے لیے اشاروں، پہیلیوں اور دیگر انداز سے رہنمائی دی گئی ہے۔ لیکن اس سب کے لیے آپ کو ٹکٹ خریدنا ہوگا جن کی تعداد محدود ہے اور مقابلے کی تاریخ کا باقاعدہ اعلان بھی کیا جائے گا۔
جونی کے مطابق اگر آپ اشاروں، کنایوں اور پہیلیوں کو سمجھ گئے تو مشکل سے ایک ہفتے میں اپنے حصے کا خزانہ ضرور ڈھونڈ نکالیں گے۔ اس ضمن میں پہلا مرحلہ 15 اگست کو شروع ہوگا جس کے ٹکٹ پہلے ہی فروخت کئے جاچکے ہیں۔ ایک ٹکٹ کی قیمت 49 ڈالر ہے جس کے بدلے چار ہزار ڈالر کی قیمتی دھاتیں حاصل کی جاسکیں گی ۔ دوسرا مرحلہ 13 ستمبر کو شروع ہوگا جس کی قیمت 59 ڈالر رکھی گئی ہے اور ایک ٹکٹ کے بدلے 7 ہزار ڈالر کا سونا مل سکے گا۔
تاہم انتظامیہ کا اصرار ہے کہ ٹکٹ خریدنے کےبعد خزانے کے اشاروں کی تفصیلات کو سوشل میڈیا یا کسی اور جگہ پر شیئر نہ کیا جائے۔ اس طرح مفت خورے بھی ٹکٹ لیے بغیر فائدہ اٹھالیں گے۔ ایسا کرنے پر انہیں مقابلے سے باہر بھی کیا جاسکتا ہے۔
جمی پیری نے کہا ہے کہ جس مقام پر خزانے موجود ہیں وہ جی پی ایس ٹریکرز نظام کے ذریعے مسلسل دیکھے جارہے ہیں اور اگر خزانے کو کہیں لے جانے کی کوشش کی جائے تو جونی فوراً اسے بھانپ سکتے ہیں۔