ایک اوربحران کے آثار

 حکومت سے عام آدمی کی توقعات کیا ہو سکتی ہیں؟ زیادہ سے زیادہ زندہ رہنے کیلئے روٹی کا آسانی سے حصول‘ اس سے زیادہ کی طلب ان کو ہی ہو سکتی ہے جن کے ہاتھوں میں دوسروں کی روزی ہو پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور یہاں اگر گندم کی کمی یا عدم دستیابی سے روٹی بھی حاصل نہ ہو سکے تو پھر شکوہ تو بنتا ہے یہ ایک الگ بحث ہے کہ تین دہائیوں سے کس طرح زرخیز زرعی اراضی ٹاو¿ن پلاننگ اور پلاٹوں میں تبدیل ہوتی رہی اس عرصہ میں فوجی اور جمہوری حکومتیں بھی موجود رہیں منصوبہ بندی کے ادارے بھی رہے مگر کسی نے اس جانب توجہ نہیں دی کہ آبادی میں اضافے اور نئے شہروں کی تعمیر کیلئے بنجر اور غیر زرعی زمین استعمال کی جائے ہاﺅسنگ سوسائٹی مافیا نے ایک طرف حکمرانوں کو اپنے جال میں پھنسا لیا بلکہ سیاستدانوں کو اسی راستے پر لگالیا کہ جلد امیر ہونے کا آسان طریقہ یہی ہے اور جب قواعد بنانے اور شہری ماسٹر پلان پر عمل کرانے والے ہی اسے تباہ کرنے پر آجائیں توروکنے والا کون ہے لیکن ان تمام بے اعتدالیوں کے باوجود ملکی ضرورت کیلئے گندم پیدا ہو سکتی ہے اسکے باوجود مسلسل دوسرے سال گندم کا بحران کس نہ کسی کی نیت میں فتور کا اشارہ دیتا ہے اس سال زیادہ بارشوں اور خراب موسم کے باوجود پنجاب اور سندھ میں گندم کی خریداری کا ہدف حاصل کرلیا تھا صرف خیبرپختونخوا میں ہدف4 لاکھ ٹن سے بہت کم گندم حاصل ہوئی اگرچہ یہ چار لاکھ ٹن بھی ضرورت سے کم ہے لیکن پنجاب سے درآمد کرکے کمی پوری کرلی جاتی تھی اس سال ابھی گندم کھیتوں اور کھلیانوں میں تھی کہ پنجاب نے دوسروں صوبوں میں برآمد پرپابندی لگادی اس وجہ سے کے پی کے جن تاجروں یا فلور ملز مالکان نے براہ راست گندم خریدلی تھی وہ بھی پھنس گئی اسی طرح اپریل اور مئی میں خیبرپختونخوا میں آٹے کا شدید بحران پیدا ہوا لیکن وزیراعظم کی مداخلت سے پنجاب نے پابندی ہٹائی تو صورتحال کسی حد تک بہتر ہوئی لیکن اس صورتحال اور مستقبل میں گندم کی کمی کے امکان کے پیش نظر سرمایہ داروں نے گندم ذخیرہ کرنی شروع کردی اور تاریخ میں پہلی بار گندم2 ہزار فی چالیس کلو تک پہنچ گئی اورپنجاب میں بھی آٹے کا 20 کلو کا تھیلا1100 سے اوپر چلاگیا اس صورتحال پر پنجاب میں پریشانی پیدا ہوئی فلورملز مالکان نے حکومت کو بلیک میل کیا اورحکومت سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوئی لیکن ملکی ضرورت کے پیش نظر گندم درآمد کرنے کی اجازت بھی دے دی گئی اب تک2لاکھ ٹن سے زائد گندم درآمد کرنے کے سودے ہوچکے ہیں۔

 جبکہ اگلے دو ماہ میں8 لاکھ ٹن تک ہدف ہے لیکن ماہرین کاخیال ہے کہ ہمارے ہاں گندم کی کمی اور آٹے کے بحران کی اصل وجہ گندم کی سمگلنگ ہے اور ہمارے ہمسائے ممالک میں صرف افغانستان ہی ایسا ملک ہے جہاں پاکستانی گندم جاتی ہے یہ بات طے ہے کہ قانونی طریقے سے ہو یا غیر قانونی طریقے سے ہمسایہ ملک میں گندم پاکستان سے ہی جاتی ہے ‘دوسری طرف گندم کا کاشتکار بھی خاص توجہ اور حکومت کی طرف سے حوصلہ افزائی کا مستحق ہے اسلئے اگر چینی اور پٹرول وغیرہ پر سبسڈی دی جا سکتی ہے توزمیندار کو بھی سبسڈی دی جائے حکومت گندم کی قیمت خرید زیادہ رکھے جبکہ فلور ملز کو کم قیمت پر فروخت کرے تاکہ ایک طرف کاشتکار کا نقصان نہ ہو اور عوام کو آٹا بھی مناسب قیمت پر مل سکے گرچہ حکومت جس چیز پر سبسڈی دیتی ہے اس کا فائدہ سرمایہ دار ہی اٹھا لیتے ہیں عوام تک یہ نہیں پہنچ پاتا لیکن فوڈ سیکورٹی کیلئے گندم پر سبسڈی ضروری ہوتی جارہی ہے اگرحکومت ہی کاشتکار کو جائز قیمت دے تو وہ باہر فروخت نہیں کرے گا اور نہ ہی حکومت ذخیرہ اندوزوں کے آگے بلیک میل ہو گی حکومت کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اگر عوام کو روٹی بھی میسر نہ ہو تو پھر بات کہاں تک جا سکتی ہے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو یہ یقین دلایا جائے کہ کم از کم روٹی کاحصول آسان ہوگا۔