دہری شہرت کا معاملہ وطن عزیز میں وقتاً فوقتاً اٹھایا جاتا ہے تاہم اس حوالے سے کوئی موثر قانون سازی نہ ہونے کے باعث یہ مسئلہ تاحال موجود ہے ‘گزشتہ کئی ادوار میں دہری شہر ت کے حامل افراد حکومت کا حصہ رہے اور اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے جس پر مختلف حلقوں کی طرف سے تنقید بھی ہوتی رہی ‘عمران خان صاحب جب حکومت میں نہیں تھے تو ان کا موقف یہ تھا جن لوگوں کی دہری شہریت ہے ان کو حکومت کا حصہ نہیں ہونا چاہئے ۔ وجہ اس کی یہ بتاتے تھے کہ جس شخص کے پاس کسی دوسرے ملک کی شہریت ہے تو اُس نے شہریت حاصل کرتے وقت یہ قسم اٹھائی ہوتی ہے کہ وہ اُس ملک کا وفادار رہے گا۔ تو سوال یہ ہے کہ جس بھی شخص نے کسی دوسرے ملک کی وفاداری کی قسم اٹھا رکھی ہے ا یسے لوگوں کو حکومت کے کاموںسے دور ہی رکھنا چاہئے اب انکشاف یہ ہوا ہے کہ اُن کے بہت سے معاونین خصوصی جن سے وہ بہت سے امور پر مشورے لیتے ہیں وہ دہری شہریت کے حامل ہیں اب یہ معلوم نہیں کہ ان معاونین کے دہری شہریت کا حامل ہونے کا خان صاحب کو پہلے سے علم تھا یانہیں اگر نہیں تھاتو بھی یہ معاملہ قابل غور ہے اور اگر پتہ تھا تو ایسایو ٹرن کیوں لیا گیا کہ جب کہ اس معاملے میں خان صاحب کا موقف بالکل واضح تھا ا ور واضح ہے۔ ان مصاحبین کا مستقبل کیا ہو گا اس کا انتظار رہے گا۔ اس کے بارے میں جو موقف ایک حکومتی مصاحب کا ہے وہ یہ ہے کہ اگرہمیں باہر کام کرنے والے پاکستانیوںکی طرف سے اتنا زیادہ پیسہ بھیجا جاتا ہے کہ جس سے ہمارے زر مبادلہ کے سرمائے میں اضافہ ہوتا ہے تو کیا حرج ہے کہ ان لوگوں کو حکومت کا حصہ بنا لیا جائے۔ بات یہ ہے کہ جو پاکستانی بیرونی ممالک میں کام کرتے ہیں اور پاکستان میں اپنے خاندانوں کو رقوم بھیجتے ہیں تو وہ ور ک ویزے پر پاکستان سے باہر ہیں مگر ان کا پاسپورٹ تو پاکستانی ہے اور وہ اسی ملک کے شہری ہیں ایسانہیں ہے کہ انہوں نے وہاں کی شہریت اختیارکر لی ہے۔
جن لوگوں نے باہرکے ملکوںمیں شہریت حاصل کی ہوئی ہے وہ اس ملک کے باقاعدہ شہری ہیں ور اُن کی وفاداریاں بھی اس ملک کے ساتھ ہیںاس لئے ان کا او ر جو لوگ باہر کے ملکوں پر ورک ویزہ پر ہیں ان کا کوئی موازنہ نہیں۔ جو ورک ویزہ پر ہیں اُن کی وفاداریاں اپنے ہی ملک کے ساتھ ہیں اس لئے وہ اسی ملک کے شہری ہیں اور اسی ملک کے لئے زر مبادلہ میں اضافہ کا سبب ہیں مگر جن لوگوں نے بیرونی ممالک میں شہریت حاصل کر رکھی ہے اُن کا معاملہ دوسرا ہے ۔ وہ اُس ملک کے زیادہ وفادار ہیں کیوں کہ انہوں نے ان ملکوںسے وفاداری کاحلف اٹھایا ہوا ہے۔ اب یہ خان صاحب بہتر بتا سکتے ہیں کہ اُن کی پوزیشن ان کی حکومت میںکیا ہے اور کیا وہ ان عہدوں پر کام کر سکتے ہیں۔ دروغ بر گردن راوی ایسے لوگ باقاعدہ ترقی پذیر ملکوں میں پلانٹ کئے جاتے ہیں تا کہ وہ ان ملکوں کے مفادات کا تحفظ کر سکیں جن کی شہریت کے یہ حامل ہوتے ہیں۔ خان صاحب تو یورپی ممالک اور امریکہ کی ریشہ دوانیوں سے خوب واقف ہیںامید ہے کہ اس سلسلے میں ان کی پالیسی محتاط ہوگی اور جس طرح انہوںنے ماضی میں اس کی مخالفت کی ہے اب بھی اس معاملے میںکوئی قدم اٹھائیں گے دہری شہریت کے حوالے سے جن تحفظات کا اظہار مختلف حلقوں کی طرف کیا جارہا ہے وہ یقینا قابل غور ہےں اور اس ضمن میں اگر حکومت اور حزب اختلاف دونوں مل کر متفقہ لائحہ عمل تیار کریں تو زیادہ مناسب ہوگا تاکہ مستقبل میں بھی اس طرح کے مسائل کا مستقل حل تلاش کیا جاسکے ۔