حزب اختلاف متحرک

 کسی بھی جمہوری ملک میںحزب اختلاف کا کرداربہت اہم ہوتا ہے۔ یہ حزب اقتدارکے کاموں پر نظر رکھتی ہے اور جہاں بھی اُن کے قدموںمیں لغزش آئے یہ اُس کو ٹوکتی ہے اور سیدھی راہ پر چلنے پر مجبور کرتی ہے۔یوں دونوں دھڑے ملک کی بہتری کے لئے کام کرتے ہیں اور جب ایک کی عمر پوری ہوتی ہے تو حزب اختلاف اُس کی کمزویوںکوا جاگر کر کے عوام کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور اُن کی غلطیوں کو اجاگر کر کے اپنا پروگرام عوام کے سامنے اس طرح رکھتی ہے کہ عوام اُس کو ووٹ دیں اس کے ساتھ ہی وہ حزب اقتدار کی غلطیاںعوام کے سامنے لاتی ہے اور یوں اپنی راہ ہموار کرتی ہے۔ لیکن یہ تب ہوتاہے کہ جب ایک حکومت اپنی مدت پوری کرچکنے والی ہوتی ہے اور نئے انتخابات کے ذریعے عوام فیصلہ سنانے والے ہوتے ہیں کہ وہ آئندہ اس پارٹی کو حکومت سونپتے ہیں یاحزب اختلاف کو سامنے لاتے ہیں۔ یہی جمہوریت میں ہوتا ہے ۔ مگر جب کوئی بھی حکومت بن جاتی ہے تو اسے مقررہ مدت پوری کرنے کا موقع دیا جاتا ہے ایسا نہیں ہوتا کہ جیسے ہی ایک پارٹی بر سر اقتدار آئے اور ہارنے والی پارٹیاں اُس کے پیچھے جوتے اتار کر لگ جائیں۔ جیتنے والی پارٹی کو عوام نے چنا ہوتا ہے اس لئے اُس کو یہ پورا حق ہے کہ وہ اپنی مقررہ مدت پوری کرے ۔ اس دوران وہ ملک کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے اور عوام کی بھلائی کے کیا کام کرتی ہے یہ اُس کی مدت پوری ہونے تک عوام دیکھتے ہیں اور اگر اُس نے عوام کی بھلائی کے کام کئے ہوتے ہیں تو عوام دوسری دفعہ پھر اُسی کے ہاتھ میں زمام حکومت تھما دیتے ہیں اور اگر اُس سے کوتاہیاں ہوئی ہیں۔

 تو پھر اُس کو موقع نہیں دیا جاتا۔ اس لئے ہر پارٹی جو حکومت بناتی ہے وہ یہی کوشش کرتی ہے کہ اپنی مدت کے دوران وہ عوام کے لئے اتنا کچھ کر جائے کہ اُسے دوبارہ جیتنے کے لئے زیادہ زور نہ لگانا پڑے او ر اگر پارٹی اپنی مدت کے دوران عوام کے اعتماد پر پورا نہیں اترتی تو اُسے دوبارہ حزب اختلاف کا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ اسی لئے جو بھی پارٹی اقتدار میں آتی ہے اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی حکومت کے دوران وہ زیادہ سے زیادہ عوام کی بھلائی کےلئے اور ملک کی بہتری کے لئے کام کرے۔ اسی وجہ سے جمہوریت کو حکومت کے لئے بہتر سمجھاجاتا ہے کہ اس میں جو بھی پارٹی اچھے کام کر جاتی ہے اُسے دوبارہ حکومت کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور چونکہ اُسے دوبارہ عوام کے سامنے جانا ہوتاہے اس لئے وہ زیادہ سے زیادہ ملک و قوم کی بہتری کے لئے کام کرتی ہے اوریوں ملک ترقی کی سیڑھیاں طے کرتا جاتا ہے۔ سارے جمہوری ملکوںمیں یہی صورت حال ہے اور ان کی ترقی کا راز بھی اسی میں ہے کہ حکومتی پارٹی کو عوام کے سامنے جواب د ہ ہونا پڑتا ہے اس لئے وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتی کہ اُسے عوام کے سامنے جا کر شرمندگی اٹھانی پڑے۔ اس کے مقابلے میں آمریت میں ایک ہی شخص کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ ملک کو کس طرف لے جاتا ہے اور وہ کسی کو جواب دہ نہیں ہوتا۔ کچھ ایسے ملک کہ جہاں آمریت تھی جب اُن کے حالات بگڑے تو معلوم ہوا کہ حکمرانوں نے سوائے اپنی شہر ت کو ہوا دینے اور زبر دستی عوام کوپنے پیچھے لگانے کے کچھ نہیں کیا ۔

روس اس کی بڑی مثال ہے کہ جہاں عوام کو اس قدر دبایا گیا کہ کسی نے نہ تو آواز اٹھائی اور نہ حکمرانوں کو مجبور کیا کہ وہ ملک کی بہتری کا کام کریں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ افغان جنگ میں اس کا پو ل کھل گیا اور ایک ہی شکست کے بعد وہ اپنی اصل حالت میں چلا گیا اور جو ریاستیں اس نے زبر دستی اپنے ساتھ ملارکھی تھیں وہ تتر بتر ہو گئیں اور روس اپنی اُس حالت میں آ گیا کہ جس میں وہ جنگ عظیم دوم سے قبل تھا۔ اس کی وجہ وہ زبردستی تھی کہ جو کمیونزم نے اس ملک پر مسلط کر رکھی تھی۔جمہوریت کی ہمارے ہاںذرا شکل مختلف ہے‘ یہاں جو پارٹی بھی اقتدار میں آتی ہے دوسرے ہی روزسے حزب اختلاف اُس کی ٹانگیں کھینچنا شروع کر دیتی ہے،جیسے موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے دو سال ہی ہوئے ہیں اور یہ ابھی تک ماضی سے بھی باہر نہیں نکلی کہ حزب اختلاف اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئی ہے۔ ایک نئی پارٹی کہ جس کو حکومت کا کوئی تجربہ ہی نہیں ہے اس کو اتنا موقع تو ملناہی چاہئے کہ وہ اپنے پر پرزے نکال سکے مگر ہماری ہاں جمہوریت اسی کو کہتے ہیں کہ جیسے ہی ایک پارٹی اقتدار میں آئے اُس کے پیچھے پڑ جائیں تا کہ وہ اپنا سر بچاتی پھرے اور عوام کی بھلائی کا سوچے بھی نہ۔