کوروناکوشکست دینے کی حقیقت

 پانچواں مہینہ جارہا ہے کہ دنیاکورونا کے خطرے سے نبردآزما ہے اگرچہ ابھی تک اس وائرس کا زور ٹوٹا ہے نہ ہی خطرہ کم ہوا ہے امریکہ اور بھارت سمیت کئی ممالک میں اس کی ہلاکت خیزی میں اضافہ ہوا ہے لیکن سخت لاک ڈاﺅن اور گھروں کی تنہائی سے بھی لوک تنگ آگئے ہیں پاکستان کے عوام نے تو اس حد تک پابندیاں بھی قبول نہیں کی تھیں لیکن کاروبار کی بندش اور اجتماعات پر پابندی بھی بھاری محسوس ہوئی اس میں حکومتی اقدامات کا کوئی اثر ہے نہ ہی کہیں مناسب علاج ہوا لیکن پاکستانیوں نے اپنی قوت ارادی اورجسمانی مدافعتی نظام سے کورونا کا اثر توڑ دیا ہے 22 کروڑ کی آبادی میں سے اب تک 17لاکھ کے قریب کورونا ٹیسٹ ہوئے جبکہ اب تک2 لاکھ 66ہزار مثبت رپورٹیں آئی ہیں لیکن اصل متاثرہ مریضوں کی تعداد ان سے کئی گنا زیادہ ہے لیکن انہوں نے کسی ٹیسٹ یا تشخیص کے بغیر ہی کورونا پر غلبہ پالیا کہا جاتا ہے کہ اگر گزشتہ مضان کے آخری عشرے میں تجارتی مراکز کھولنے کی اجازت نہ دی جاتی اور لوگ حفاظتی تدابیر کو ترک نہ کرتے تو شاید مریضوں کی تعداد دو لاکھ سے بھی کم ہوتی اب حکومت کو اس بات کا خدشہ ہے کہ عیدالاضحی کے موقع پر مویشی منڈیوں میں دیہاتی بیوپاریوں اور شہری خریداروں کے درمیان میل جول اور بازاروں میں ہجوم ایک بار پھر مریضوں میں اضافہ کا باعث نہ بن جائیں ایک طرف وزیراعظم اوروزرائے اعلیٰ عوام کو احتیاط کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں تو ساتھ ہی وزارت صحت اور این ڈی ایم اے کے حکام مریضوں کی تعداد میں کمی کو اپنی کامیابی اور کورونا کی شکست بتا رہے ہیں۔

 روزانہ کے اعدادوشمار تو حوصلہ افزاءہیں لیکن اس وقت یہ خبریں اوروائرس پر غلبہ پانے کا جشن عوام کو خطرے سے بے نیاز کرنے کا موجب ہو سکتا ہے رمضان اور عیدالفطر کے موقع پر کورونا کا خوف موجود تھا روزانہ امریکہ‘اٹلی اور ایران میں سینکڑوں لوگوں کے مرنے کی خبریں بھی اعصاب پرحاوی تھیں لیکن پھر بھی جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ لوگ عید منانا اور نئے کپڑے خریدنا چاہتے ہیں اور بازار کھولنے کا حکم دیا تو خوف کی دیوار بھی گرادی گئی اور خواتین و حضرات نے شاپنگ کا ریکارڈ توڑا مگر ان کو معلوم نہیں تھا کہ وہ نئے کپڑوں کے ساتھ کورونا وائرس بھی لے کر جارہے ہیں ‘ آنے والی بڑی عید پر بے احتیاطی سے یہ بیماری دوبارہ پھیل بھی سکتی ہے اب تو قومی ادارہ صحت نے ٹائیفائیڈ کے خطرے سے بھی خبردار کردیا ہے یہ ایک خطرناک اور مہلک بیماری ہے مگر یہ کورونا کے وائرس کی طرح ایک سے دوسرے کو منتقل نہیں ہوتی یہ کھانے پینے کے اشتراک سے پھیلتی ہے یہ بہت شدید قسم کا بخار ہے اور اندرونی جسم کیلئے خطرناک ہوتا ہے اسکی بھی ابتدائی تشخیص بخار سے ہی ہوتا ہے لیکن مخصوص علامات کے ظاہر ہونے یا پانچ دن سے مسلسل بخار کی صورت کے ٹیسٹ سے پتہ چل جاتا ہے ۔

خدانخواستہ کورونا کے ساتھ اگر ٹائیفائیڈ بھی شروع ہوگیا تو بہت بڑا مسئلہ ہو جائے گا اسی لئے حکومت صرف ایک اشتہار یا بیان دے کر خبردار ہی کرسکتی ہے بچاﺅ کی تدابیر ہم نے خود کرنی ہیں جہاں تک کورونا کے خلاف کامیابی کا دعویٰ ہے تو حکومت نے صرف 18 لاکھ ٹیسٹ کئے چند ہزار افراد ہی ہسپتالوں تک گئے خصوصی قرنطینہ مراکز بھی زیادہ خالی ہی رہے اور شروع میں وہاں جانے والے کے ساتھ حسن سلوک کا پتہ چلا تو لوگ خود ہی گھروں تک محدود ہوگئے لیکن کھربوں روپے کہاں خرچ ہوئے اس کاحساب سپریم کورٹ بھی مانگ رہی ہے ہمارے ملک میں روایت ہے کہ کوئی بھی بحران ہو اس سے کرپشن اور بدعنوانی کا راستہ آسانی سے نکل آتا ہے سپریم کورٹ میں بھی حکومت حساب دینے میں مشکل سے دوچار ہے اورشاید اسی سے بچنے کیلئے کورونا پر فتح پانے کی بات کی جاتی ہے حالانکہ اس میں بہت مبالغہ ہے کورونا اب بھی ایک چیلنج کی طرح موجود ہے البتہ حکومتی دعوﺅں سے عوام کو احتیاطی تدابیر اپنانے میں رعایت نظرآرہی ہے جو خطرناک ہو سکتی ہے۔