اپنی کم علمی اوربے خبری کا احساس

ہر چار پانچ ماہ بعد مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں تو ایک انتہائی جاہل شخص ہوںمیں اپنے آپ کو قدرے پڑھا لکھا اور ادب سے باخبرشخص سمجھتا تھا اور یکدم ایک دھچکا لگتا ہے کہ تم جیسا بے خبر اور ان پڑھ شخص تو دنیا میں نہ ہوگا کہ تم تو آگاہ ہی نہیں تھے کہ اس دنیا میں کیسے کیسے نابغہ¿ روزگار اور تخلیقی عمل پر عبور رکھنے والے ادب کے سنگھاسن پر براجمان ہیں اور ان کے پاﺅں میں پھولوں اور محبت کے چڑھاوے مہک دیتے ہیں اور میں تو اُن کے وجود سے ہی بے خبر تھا ، کیسا جاہل شخص ہوں یہ وقوعہ ہر چار پانچ ماہ بعد اور کبھی ہر ماہ بعد ظہور پذیر ہو جاتا ہے دراصل کوئی ایسا ادیب اتفاقاً دریافت ہو جاتا ہے جس کی تحریر سے میں ناواقف رہا تھا اور وہ ادیب مجھے ایک شدید احساس کمتری سے دوچار کردیتا ہے ، اُس کی تخلیق کی قوت مجھے زیر کرلیتی ہے اور میں چاروں شانے چت پڑا شدید شرمندگی میں اس سے معافی کا خواستگار ہوتا ہوں کہ حضور میری نالائقی اور جہالت سے درگزر کیجئے کہ میں آپ کی فنی عظمت سے اب تک بے خبر رہا اور میں تو اپنے تیئں دنیا بھر کے ادب سے شناسا ہونے کے دعوے کیا کرتا تھا یہ وقوعے یہی ہر چار پانچ ماہ بعد نہایت تسلسل سے ہوتے چلے جاتے ہیں مجھے یاد ہے کہ کچھ برس پیشتر مجھ سے کسی نے پوچھا ، کیا تم نے نوبل انعام یافتہ پرتگالی ناول نگار ہوسے سراما گو کا ناول ” بلائنڈ نیس“ پڑھا ہے تو میں نے لاپروائی سے کہا تھا کہ میں سراما گو کے نام سے تو آگاہ ہوں لیکن اس کی کوئی تحریر پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا کہ گارسیا مار کیز ، لولوسا ، میلان کُندیرا ، کوئٹزی ، نجیب محفوظ وغیرہ کے بعد کوئی اور ناول نگار میری نظروں میں کہاں جچے گا میں نے یو نہی بے دلی سے سراماگو کا ناول ” بلائنڈ نیس“ شروع کیا

عجیب ناول نگار تھا کہ مسلسل عبارت لکھتا چلا جاتا تھا ، نہ پتہ چلتا تھا کہ کون سا کردار گفتگو کررہا ہے ، نہ کہیں پیرا ختم ہوتا تھا اور نہ ہی وہ گرائمر کی کچھ پرواہ کرتا تھا اگرچہ ورجینیا وولف کا اسلوب بھی اسی مسلسل تحریر سے مشابہت رکھتا تھا لیکن سراماگو تو بقول کسے گرائمر کے حوالے سے مادر پدر آزاد لگتا تھا ناول ختم کیا تو میمونہ نے پوچھا اور وہ اس دوران مشاہدہ کرچکی تھی کہ یہ ناول پڑھتے ہوئے میرے شوہر نامدار کچھ بے خبر اور لاتعلق سے ہوگئے ہیں اور کچھ حالت اضطراب میں رہتے ہیں تو ان پر یقیناً اثر ہوگیا ہے تو اس نے پوچھا ” بلائنڈ نیس“ ناول کیسا تھا تو میں نے کہا تھا کہ میمونہ بیگم میرا جی چاہتا ہے کہ میں نے جو چار پانچ درجن کتابیں لکھی ہیں جن میں دس بارہ ناول بھی ہوں گے ان سب کو صحن میں ڈھیر کرکے نذر آتش کردوں کہ ہم تو جھک ہی مارتے رہے ہیں ، بڑا ادب تو سراماگو کا ناول ” بلائنڈ نیس“ ہے چنانچہ میں نے سراماگو کے تمام ناول نہایت عقیدت سے پڑھ ڈالے اس کے ناولوں کا تجزیہ کرنے کیلئے کالم کا مختصر دامن تنگ ہے ازاں بعد میں نے ایک اور نوبل انعام یافہ ترک ادیب اُرہان پاموک کو ایک تعصب اور ناپسندیدگی سے پڑھنا شروع کیا تو مجھے دکھ تھا کہ آخر یا شرکمال کو اس انعام سے کیوں نہ نوازا گیا صرف اس لئے کہ وہ نسلاً ایک ترک نہ تھا ، کرد تھا اور متعدد بار نوبل انعام کے لئے نامزد ہونے کے باوجود ترک حکومت کی مخالفت کے باعث اسے یہ اعزاز نہ مل سکا بلکہ ایک بار اسے گردش زبان کے حق میں کوئی ایک فقرہ لکھنے کی پاداش میں جیل میں ڈال دیا گیا جب اس وقت کے وزیر اعظم سے سوال کیا گیا کہ ترکی کے سب سے عظیم اور بین الاقوامی شہرت یافتہ ناول نگار کو آپ کی حکومت نے کیوں پابند سلا سل کردیا تو وزیر اعظم صاحب نے کہا کہ اگر آپ میرے تکیے کے نیچے دیکھیں تو وہاں یاشر کمال کا کوئی ناول ہوگا ۔

لیکن قانون تو قانون ہے اگر یاشر کمال بھی اس کی خلاف ورزی کرے گا تو سزا وار ٹھہرے گا یاشر کمال کا تذکرہ کرتے ہوئے تاریخ اور نسلی تعصب کی گنجلک بھول بھلیوں میں الجھ گیا لیکن ایک سترے بہترے تقریباً مخبوس الحواس شخص سے آپ اور کیا توقع کر سکتے ہیں چنانچہ میں نے نوبل انعام یافتہ ارہان پاموک کو ایک تعصب اور ناپسندیدگی سے پڑھنا شروع کیا کہ اس ناول نگار کو یاشر کمال کی جگہ اگر یہ انعام دیا گیا ہے تو صرف اس لئے کہ اس نے ترکوں نے آرمینیا کے عوام کا جو قتل عام کیا تھا اس کی مذمت کی تھی اور ایک مرتبہ پھر میں جاہل ثابت ہوگیا ، اس کے ناول ” مائی نیم ایز ریڈ “ نے مجھے مسحور کردیا مجھے چاروں شانے چت کردیا ایسا ناول تو کسی بھی اردو ناول نگار کی پہنچ میں نہ ہو سکتا تھا ازاں بعد میں نے پاموک سارے کے سارے کو چاٹ ڈالا اس کے آخری ناول ” معصومیت کا عجائب گھر“ کے بارے میں میں نے ایک تفصیلی جائزہ تحریر کیا کہ یہ کیا ہی منفرد اور حیرت ناک ممکنات کا ناول تھا جی ہاں ہر چار پانچ ماہ کے بعد مجھے شدت سے احساس ہوتا ہے کہ میں ایک جاہل اور بے خبر شخص ہوں۔

 کوئی ایک ایسا ادیب دریافت ہوجاتا ہے جس کی تحریر پڑھ کر میں حیرت اور تاسف کے سمندر میں ڈوب جاتا ہوں کہ اتنی عمر بیت گئی اور میں اب تک اس نابغہ روزگار ادیب کے وجود سے بھی بے خبر تھا... اور تم اپنے آپ کو بین الاقوامی ادب سے آگاہ سمجھتے رہے کیسے جاہل ہو... میں پچھلے چھ ماہ سے بالکل بیکار اور فارغ بیٹھا ہوں یعنی میری سٹڈی ٹیبل بانجھ پڑی ہے اس پر کسی ناول یا سفر نامے کا ظہور نہیں ہوتا‘ چنانچہ فراغت اور فرصت کے یہ رات دن میں پڑھنے میں بسر کرتا ہوں... لاہور کے ادیب جب سے پاک ٹی ہاﺅس کی وفات ہوئی ہے گمشدہ گائیوں کی مانند دربدر ہوتے ہیں‘ کبھی کسی ایک ٹھکانے پر اکٹھے ہوتے ہیں اور کبھی کسی اور مقام کو گھر بنا کر اسے پاک ٹی ہاﺅس میں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں ناصر باغ کے چوپال میں ایوان اقبال کے تہہ خانے میں‘ نیر علی دادا کے نیرنگ ریستوران میں اور کبھی الحمراءکی ادبی بیٹھک میں لیکن وہ بات جو شاید مولوی مدن سے منسوب ہے اب تک نہیں بنی انہی دنوں ایک اور مختصر سا ٹھکانہ وجود میں آیا گلبرگ کے مین بلیو روڈ پر واقع کتابوں کی ایک جدیدشکل کی دکان” ریڈنگ“ کے پہلو میں ایک مختصر سے کیفے میں چند ادیب کچھ عرصے سے پناہ گزین ہو رہے ہیں۔