اور اب کے تو کچھ ایسے شب و روز میں عید قرباں کی آمد آمدہے کہ چاروں‘جبری اور رضاکارانہ نظر بندی کا موسم چھایا ہوا ہے،محض چھ سات دن ہی باقی ہیں مگر وہ جو گلیوں میں دو دو ہفتے پہلے سر شام اور رات دیر تک بچے بالے بڑی بڑی ٹولیوں کی صورت میں قربانی کے جانوروں کوہنکاتے اور دوڑاتے پھرتے تھے، اب کے آنکھیں اور کان وہ منظر دیکھنے سننے کو ترس گئے ہیں ، تب قربانی کے ان جانوروں کو خوب سجایا جاتا تھا،مہندی سے ان کے مزے مزے کے نام لکھے جاتے جو یہ نہ کر پاتے وہ جانوروں کو بنارسی اور کمخواب کے تیز رنگوں والے شالے دو شا لے ۔ لسّے اور دوپٹے اوڑھا دیتے تھے پھر ان جانوروںکے پیروں میں چھم چھم کرتی پائلیں،چاندی کی لچھیاں اور گلے میں گھنٹیاں اور گھنگھروڈال دئیے جاتے اور جس وقت یہ جلوس کی صورت گلیوں بازاروں میں نکلتے توکیا ہی دل خوش کن منظر ہوتا، قربانی کے کم کم جانور غصیل ہوتے زیادہ تر اصیل ہوتے اور بچوں کو ان کی خوشی کرنے دیتے، چھوٹے بچے بھی ہمراہ ہوتے جو کچھ کچھ سہمے ہوئے ہوتے تاہم بڑے بھائیوں کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھتے کہ چند لمحوں کے لئے جانورکی رسی انہیں پکڑا دیں اور یہ موقع ملتے ہی ان کے چہرے خوشی سے گلال ہو جاتے اور تب وہ اپنے ہم عمر بچوں کی طرف فخر و انبساط سے دیکھتے، اگر چہ یہ وقفہ بہت کم دورانیہ کا ہو تا مگر دوسرے دن اپنے دوستوں کو رات کا یہ قصہ سناتے ہوئے ان کے چہروں پر کھیلتی خوشی دیدنی ہو تی‘ میں اس طرح کی ٹولیوں کو جب بھی دیکھتا ہوں تو میری نظریں ٹولیوں میں شامل ان بچوں پرہوتی ہیں ۔
جن کے اپنے جانور نہیں ہوتے وہ اپنے دوستوں اور ہمسائے بچوں کی خوشی سے خود کو خوش رکھنے کوشش کرتے اور بسا اوقات وہ جانوروں کے بارے بڑوں سے سنے سنائے قصے سنا کر اپنی اہمیت کا احساس دلاتے، خیر یہ میری سوچ ہوسکتی ہے بچے ان باتوں سے بے نیاز ہوتے ہیں ان کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں اپنی دنیا ہو تی ہے بہت پہلے میں نے ایک ”ہائیکو“ کہا تھا کہ ... ہنستا رہتا ہے... کیا جانے وہ دنیا کو... چھوٹا بچہ ہے... اب کے قربانی کے جانور خریدنے والوں کے لئے سرکار نے کچھ ہدایات اور آداب( ایس او پیز) طے کر رکھے ہیں ان میں سے مجھے سب سے زیادہ اچھی ہدایت یہی لگی ہے کہ جانور خریدنے والے شہری اپنے بچوں کو ساتھ لے کر منڈیوں میں نہ جائیں‘ موجودہ وباءکے دنوں سے قبل کے زمانے میں بچے ضرور بڑوں کے ہمراہ ہو تے اور ان کی حالت اس وقت دیکھنے والی ہوتی جب انہیں کو ئی جانور پسند آ جاتا اور باپ یا بڑے بھائی کے مول تول سے بے نیاز وہ آہستہ آہستہ جانور کے قریب ہوتے ننھا سا ہاتھ اس پر پھیرتے ڈرتے ڈرتے اس کی رسی کو بھی پکڑ لیتے مگر بات نہ بننے پر بچے کو اس کے بڑے بے دردی سے اپنی طرف کھینچ کر آگے بڑھ جاتے، اور اس وقت تو ان کی حالت دیکھی ہی نہیں جا سکتی جب کوئی جانور خریدے بغیر وہ منڈی سے باہر نکل رہے ہوتے ہیں، سو اس لئے منڈی میں بچوں کو لانے پر پابندی کے حکم سے مجھے ایک گونہ اطمینان ہوا‘ چند برس ادھر یک نجی پشتو چینل سے عید قرباں کے حوالے سے میرا ایک ڈرامہ نشر ہوا، اس میں بھی میں نے بچوں کی اس بے بسی کا ذکر کیا تھا‘ ذکر اس لئے کہ اس لانگ پلے میں محض جانور ہی تھے اور پورے ڈرامے میں کوئی انسان سرے سے تھا ہی نہیں،جب مجھے پروڈیوسر و ہدایتکار خالد خان نے اس انوکھے خیال کے بارے میں بتایا تو مجھے یہ ایک مشکل پراجیکٹ لگا۔
میں نے نیم رضا مندی سے حامی بھری ، مگر سکرپٹ لکھنے سے پہلے جب میں سوچ بچار کے مرحلے میں تھا، مجھے اچانک پڑوسی ملک کے ایک آرٹسٹ اور پیش کارکمل ہاسن کا ایک انٹرویو یاد آگیا جس میں اس نے کہا تھا کہ ” ہمیں فلم پشپک کے لئے جو سکرپٹ لکھنا پڑا تھا اس کا وزن کئی سیر ہو گا “ پشپک نہ صرف میری پسندیدہ فلم ہے بلکہ ربع صدی پیشتر میرے قریبی دوستوں میں شاید ہی کوئی دوست ایسا ہو جسے میں نے یہ فلم نہ دکھائی ہو،ان میں پشاور کے باہر کے کچھ معروف دوست بھی شامل ہیں جن میں ایوب خاور اور سلیم طاہر سمیت کئی ایک ہیں، پھر دوست پروڈیوسر فرمان اللہ جان کی وساطت سے اس وقت کے پشاور ٹی وی کے جی ایم مرحوم ارباب خان تک بھی وڈیو کیسٹ پہنچائی جنہوں نے نہ صرف فلم خود دیکھی بلکہ ڈرامہ پروڈیوسر ز کو بھی دکھائی، یہ فلم جس کے لئے کئی سیر وزنی سکرپٹ لکھا گیا تھا مگر پوری فلم میں انسان کا ادا کیا ہوا کوئی مکالمہ تو در کنار کوئی ایک لفظ بھی شامل نہیں ہے، یہ کوئی خاموش فلم نہیں ہے،ایک بھرپور زندگی کی عکاسی کرتی ہوئی اس فلم میں پرندوں کی آوازیں ہیں گاڑیوں کے ہارن ہیں کسی ریڈیو سے آنے والی کسی گانے کی آواز ہے چیزیں اٹھاتے رکھتے ہوئے آوازیں آتی ہیں بازار کا شور ہے پھر اس میں کملا ہاسن سمیت کئی آرٹسٹ ہیں ایک عمدہ کہانی ہے جس میں محبت‘ نفرت ‘ سازش‘ بے روزگاری کے نتیجے میں ہونے والا ڈپریشن، سفوکیشن‘معاشی اور معاشرتی مسائل سے لے کر جادو سمیت تفریحی مواد بھی ہے، مگر یہ سب کچھ اس انداز سے فلمایا گیا ہے کہ کہانی کے کسی کردار کو بولنے کی ضرورت ہی پیش نہیں ہوتی اور پروڈیسر ڈائریکٹر خالد خان کے من میں جانے کیا سمائی کہ مجھے ایسا ڈرامہ لکھنے کاکہا جو سراسر مکالموں پر مبنی ہو گا مگر اس میں کوئی آرٹسٹ بلکہ سرے سے کوئی انسان ہی نہیں ہو گا اور یہ مکالمے قربانی کے مختلف جانوروں کے ما بین ہوں گے جو ایک منڈی کے احاطہ میں جمع ہیں ،پشتو زبان کے یہ مکالمے پھر خالد خان، نوشابہ بیگم، بصیر سمیت کچھ فنکاروں اور میری آواز میں ریکارڈ کئے گئے تھے، کمال ڈرامہ تھا جو کئی برس تک عید قرباں پر نشر ہوتا رہا ہے۔
بات عید قربان اور قربانی کے ان جانوروں کی تھی جن کو دو دو ہفتے پہلے سر شام اور رات دیر تک بچے بالے بڑی بڑی ٹولیوں کی صورت گلیوںمیں دوڑاتے پھرتے تھے مگر اب وباءکے دن ہیں اور ان دنوں کا تقاضا یہی ہے کہ یار لوگ گھروں میں بیٹھے رہیں۔ اس لئے منڈیوں میں اب وہ پہلے کی سی چہل پہل اب باقی نہیں ،جانور تو بہت ہیں بلا کے خوبصورت بھی مگر از حد مہنگے کیونکہ اب بات ہزاروں سے نکل کر لا کھوں روپوں تک پہنچ چکی ہے، عام سے قد کاٹھ کے جانور کے دام بڑی سہولت سے دو ڈھائی تین اور چار لاکھ رروپے بتاتے ہیں بلکہ ایک چینل پر تو میری آنکھوں نے راجا نام کے بیلوں کی جوڑی کو دیکھا اور اپنے کانوں سے ان کے دام بارہ لاکھ روپے سنے، ان حالات میں بچے تو بچے بڑے بھی منڈی جانے سے پہلے دسیوں مرتبہ سوچیں گے ،سوچیں گے کیا سوچ ہی رہے ہیں جبھی تو منڈیاں لگ چکی ہیں قربانی کی جانور بھی آ چکے ہیں مگرخریدار کم ہی ادھرکا رخ کر رہے ہیں ممکن ہے کہ یار لوگ ایک آدھ دن قبل ہی جانور خریدنے جائیں، شہروں میں تو یوں بھی جانوروں کو رکھنے کی جگہیں نہ ہونے کے برابر ہیں معلوم نہیں شاید پہلے بھی رہے ہوں مگر اب تو باقاعدہ گاڑیوں کی پارکنگ کی طرح قربانی کے جانوروں کے لئے ” کرائے کے لئے باڑے دستیاب ہیں، جن کے باہر جلی حروف میں نرخ نامہ بھی آویزاں ہے، تا ہم اب سر ِ دست کرائے کے وہ با ڑے بھی خالی پڑے ہیں، اور ہمیشہ پر رونق رہنے والی گلیاں بھی گنگھرو¿ں،گھنٹیوں ،پائلوں ،لچھیوں کی جھنکار اور بچے بالوں کی چیخ و پکار سے خالی سائیں سائیں کر رہی ہیں اور ان سونی گلیوں میں ” مرزا یار “کی طرح ہر شخص حیران ، پریشان اور سر گردان بلکہ سحر زدہ سا پھرتے ہوئے منیر نیازی کے شعر کو اعتبار دے رہا ہے۔
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ