سوشل میڈیا کا کوئی مثبت استعمال بھی ہو گا ہی لیکن سچی بات ہے ہمارے معاشرے کی مخصوص سوچ کی وجہ سے اکثر منفی نتائج ہی سامنے آئے ہیں اب تو سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان بھی اس بات پر فکر مند نظر آتے ہیں کہ کچھ عاقبت نا اندیش ان کےلئے بھی اذیت کا باعث ہو رہے ہیں اس میڈیم کو ہمارے ملکی سلامتی کے اداروں اور عدلیہ کے خلاف مہم کیلئے کھل کر استعمال کیاگیا اور اگر کسی ایسی شخص پر قدغن لگائی گئی تو الگ شور اٹھا دیا گیا ‘ لوگوں کی عزتوں کو اچھالنا تو جیسے ایک فیشن بن گیا ہے‘ گزشتہ روزسپریم کورٹ آف پاکستان نے سوشل میڈیا، یوٹیوب پر قابل اعتراض مواد کا نوٹس لے لیا‘ایک کیس کی سماعت میں جسٹس قاضی امین نے کہاکہ ہمیں آزادی اظہار رائے سے کوئی مسئلہ نہیں، کیا ایف آئی اے اور پی ٹی اے نے دیکھا ہے یوٹیوب پر کیا ہورہا ہے، ‘جسٹس قاضی امین نے کہاکہ کوئی یوٹیوب پر چاچا تو کوئی ماما بن کر بیٹھ جاتا ہے، ججز کو شرمندہ کیا جاتا ہے، کل ہم نے فیصلہ دیا اور وہ یوٹیوب پر شروع ہوگیا، ہم تحمل کا مظاہرہ کررہے ہیں آخر اس کا اختتام تو ہونا ہے۔سپریم کورٹ نے اس کا نوٹس لیا ہے تو اس پر موثر قانون سازی اور حدود و قیود کاتعین ضروری ہے اگر دیکھا جائے تو ہماری سیاسی پارٹیوں نے اپنے کارکنوں کی مناسب تربیت کرنے کی طرف تو کوئی توجہ نہیں دی مگر اپنے اپنے سوشل میڈیا گروپ بنا کر مخالفین کی عزت اچھالنے کی حوصلہ افزائی کی ہے اس لئے بڑی سیاسی پارٹیوں کو اس غلط روش کا ذمہ دار کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔
پاکستان میں اس وقت سائبر کرائمز کے قوانین موجود ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے کسی کی عزت اچھالنے یا بلیک میل کرنے کی سزائیں بھی مقرر ہیں اس ذریعہ سے منافرت پھیلانے کے لئے بھی سزائیں ہیں لیکن زیادہ تر اکاﺅنٹس یا ویب سائٹ فیک ناموں اور آئی ڈیز پر ہوتی ہیں اور ان کے پیچھے اصل عناصر تک پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے لیکن ایسی سائٹس اور اکاﺅنٹس یا پوسٹس کو روکا جا سکتا ہے اور یہ کئی ممالک میں ہوا ہے ‘ امریکہ میں میڈیا پر افغانستان میں ہلاک فوجیوں کی خبریں یا ان کی فوٹیج چلانے پر پابندی ہے آزادی رائے کے اظہار کے لئے ان کے پاس بھی صرف مذہبی شخصیات ہی رہ جاتی ہیں اور اس کام کے لئے مسلمان ممالک کے بلاگرز کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں ‘ یورپ و امریکہ میں جرمنی میں ہٹلر کے ہاتوں مارے جانے والے یہودیوں پر کوئی بات کر سکتا ہے نہ ہی کچھ لکھ سکتا ہے لیکن ہمارے حوالے سے ہر توہین آمیز جسارت کو اظہار رائے کی آزادی سے جوڑا جاتا ہے اس وقت ہمیں یوٹیوب یا دیگر سوشل میڈیا ذرائع پر اگر مکمل پابندی کی بجائے مضر اور نفرت انگیز پوسٹس کو مانیٹر کرکے روکا جائے تو اس سے ہمارے معاشرے میں بے ہودگی کو محدود کرنے کی مدد ملے گی ‘ سپریم کورٹ کے ججز کی تشویش ایک سنجیدہ معاملہ ہے ۔ا س حوالے سے ہمیں امریکہ اور دیگر نام نہاد آزادی رائے کے چیمپئن ممالک کی پرواہ کرنے کی بجائے اپنے مفاد کو پیش نظر رکھنا ہو گا اور امریکہ خود اپنے مفاد کےلئے حقائق عوام سے چھپاتا ہے وہ ہمیں کیسے اس کام سے روک سکتا ہے حکومت کے لئے یہ موقع ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کے لئے اقدامات کرے۔