نیب کا ادارہ ایک بار پھر سیاسی، پارلیمانی اور عدالتی حلقوں میں زیر بحث ہے خواجہ سعد رفیق کی اپیل کے فیصلے میں سپریم کورٹ کے نیب کی کارکردگی سے متعلق ریمارکس سے سیاستدانوں اور بالخصوص جن کے خلاف انکوائریاں اور مقدمے چل رہے ہیں ان کے موقف کو تقویت ملی ہے ۔ نیب چیئرمین نے سپریم کورٹ میں وضاحتی بیان میں ان مسائل اور مشکلات کا بھی ذکر کیا ہے جو تفتیش اور مقدمات کے جلد فیصلوں کی راہ میں حائل ہیں۔ ان میں سب سے بڑی وجہ احتساب عدالتوں کی کمی ہے۔ عدالت عظمیٰ کی طرف سے 120 نئی احتساب عدالتوں کے قیام کے حکم پر وزارت قانون نے بھی اپنی مجبوریاں بیان کی ہیں۔ ان میں فنڈز کی کمی بھی بتائی گئی ہے حالانکہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں قرار دیاتھا کہ عدالتوں کے قیام کیلئے 2.86 ارب روپے سالانہ زیادہ رقم نہیں ہے اور اگر ان کے قیام سے کرپشن کی لوٹی ہوئی دولت واپس آئے لگی تو وہ کھربوں میں ہوگی ایک طرف عدالت عظمیٰ اور نیب احتساب کے عمل کو تیز کرنے اور مقدمات کے جلد فیصلے کرنے کیلئے کوشاں ہیں تو دوسری طرف سیاستدان اس ادارے کو ہی ختم یاغیر موثر کرنے کا مطالبہ کرنے لگے ہیں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت سنجیدہ الزامات کا سامنا کرر ہی ہے اور وہ عدالتوں کی کمی اور قانونی پیچیدگیوں کے باعث فیصلوں میں تاخیر کو اپنی بے گناہی کا جواز سمجھ کر نیب کو ہی جھوٹا کہہ رہے ہیں اور حکومت پر انتقامی کاروائی کا الزام لگا رہی ہے لیکن ایک بات بڑی واضح ہے کہ موجودہ حکومت اور بالخصوص وزیراعظم عمران پر نااہلی، بدانتظامی اور نالائقی کے جو بھی الزام لگائیں لیکن نیب کے قیام یا چیئرمین کی تقرری میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں۔ نیب 1997 میں نواز شریف کے بنائے گئے احتساب کمیشن کی ہی ترقی یافتہ شکل ہے۔
احتساب کمیشن کے تحت نواز شریف حکومت نے بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری پر 11 مقدمات بنائے تھے جن کے فیصلے2008 کے بعد آصف زرداری کی حکومت کے دوران کرائے گئے۔ نیب کا ادارہ اگرچہ جنرل پرویز مشرف نے قائم کیا تھا لیکن اس کی بنیاد موجود تھی بلکہ جنرل پرویز مشرف نے اس کو نرم کرکے سیاسی انجینئرنگ کے لئے استعمال کیا تھا ۔اس ادارے اور نیب قوانین کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی تائید حاصل رہی اور دونوں جماعتوں نے اپنے دس سالہ اقتدار میں اس کو چھیڑنے کی کوشش نہیں کی حالانکہ اٹھارویں ترمیم میں آئین کا سارا ڈھانچہ تبدیل کردیاگیا۔ جب ذاتی مفاد ہوا تو راتوں رات گریجویشن کی شرط ختم کرکے آصف زرداری کے لئے صدارت کا راستہ صاف کیا گیا اسی طرح عدالت سے نااہلی کے بعد سیاسی کردار ادا کرنے کی ترمیم فوری منظور کرائی گئی یہ الگ بات ہے کہ اس کو سپریم کورٹ نے معطل کر دیا جب مسلم لیگ (ن) کے وزیراعظم شاہد خاقان اور پیپلز پارٹی کے اپوزیشن لیڈرخورشید شاہ نے موجود چیئرمین نیب کو مقرر کیا تو مسلم لیگی حکومت کے دوران ہی نیب نے اپنا کام آزادانہ شروع کر دیا۔
شاہدخاقان جانتے ہیں کہ وہ بطور وزیراعظم چیئرمین نیب پر دباﺅ نہیں ڈال سکے تھے اور یہ بھی سمجھتے ہیںکہ موجودہ وزیراعظم بھی ایسانہیں کرسکتے لیکن اپنے اور پارٹی راہنماﺅں کے خلاف ن کے پاس صرف یہی جواز ہے کہ یہ کیس حکومت کے دباﺅ پر بن رہے ہیں۔ اس وقت حکومت کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے منی لانڈرنگ کی روک تھام کے سخت قوانین منظورکرانے کی ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ کے ارکان کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ کرپشن کے خلاف سخت قوانین بنانے میں تعاون کریں تاکہ سیاستدانوںپر الزامات دھوئے جاسکیں اور جن کی وجہ سے سیاست ہی ایک الزام بن چکی ہے موجودہ حکومت سے اب ایک ہی توقع تھی کہ وہ احتساب کے ذریعے کرپشن کا راستہ روکنے کا عمل آگے بڑھائے گی نئی عدالتیں قائم ہونگی اور برسوں سے زیر التوا مقدمات منطقی انجام کو پہنچے گے لیکن یہ بھی اپوزیشن کے ہاتھوں بلیک میل ہوگئی تو پھر بہتری کی کوئی صورت باقی نہیں رہی۔