ہمارے یہاں یہ ایک وطیرہ بن چکا ہے کہ ہر آنے والا جانے والوں پر الزمات لگا کر اور تمام برائیوں کی جڑ ان کو قرار دے کر اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتا ہے ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتارہاہے ‘ ذوالفقار علی بھٹو کی سول حکومت کو جس نے اس ملک کو ایک آئین دیا تھا کا خاتمہ کیا گیا اور مختلف الزامات میں اس پر مقدمہ چلا کر بالاخر ایک میں اسے سزائے موت دی گئی تاہم برسراقتدار فوجی سربراہ کی جان ایک ہوائی حادثے نے لی اور صدارت سینٹ کے چیئرمین کے ہاتھ آ گئی اور حکومت مسلم لیگ کے ہاتھ میں کہ جس کا لیڈر نواز شریف تھا ۔ نوا ز شریف کی حکومت کو صدر ِپاکستان نے چلتا کیا ‘ حکومت کو ہٹانے کی وجہ کرپشن تھی جو کبھی بھی ثابت نہ ہو سکی اس کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں مگر ان کی حکومت کو بھی کرپشن کے الزامات کے ساتھ گھر بھیج دیا گیا اور یہ کام بھی صدرغلام اسحاق خان نے انجام دیا ۔ مگر باوجود کوشش کے کرپشن ثابت نہ ہوئی دوبارہ مسلم لیگ کی حکومت آئی مگر اسے بھی نہ صرف گھر بھیجا گیا بلکہ شریف خاندان کو ملک بدر ہی کر دیا گیا ادھر زرداری خاندا ن خودساختہ بن باس میں چلا گیا‘ الزام اس دفعہ بھی کرپشن کا ہی تھا مگر باوجود پوری طرح زور لگانے کے شریف خاندان کی کرپشن ثابت نہ ہو سکی ۔ شریف خاندان کو دس سال کےلئے سیاست سے ہی باہر کر دیا گیا تھا اور ان کے واپس پاکستان آنے پر بھی پابندی لگا دی گئی چنانچہ اسی دوران پی پی پی اور مسلم لیگ جو اب مسلم لیگ ن ہو چکی تھی نے آپس میں ایک میثاق کیا جسے میثاق جمہوریت کہتے ہیں اور پھر کسی طرح پی پی پی کے لیڈروں کو ملک آنے کی اجازت مل گئی یا یہ خود ہی واپس آ گئے اور انہوں نے صدر پرویز مشرف ساتھ ایک معاہدہ کر لیا۔
جسے این آر او کا نام دیا گیا اور یوں ایک دفعہ پھر سیاست کو پاکستان میں داخلے کا موقع مل گیا اور مسلم لیگ کا دھڑا جس کی سربراہی نواز شریف کے ہاتھ میں تھی اس کو مسلم لیگ ن کا خطاب مل گیا ۔ صدر مشرف نے نئے انتخابات کا اعلان کیا تو اسی دوران بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا ۔ مگر پی پی پی نے ان انتخابات میں اکثریت حاصل کر لی اوریوں پی پی پی بر سر اقتدار آ گئی اور صدر مشرف کو ہٹا کر آصف زرداری صدر بن گئے اور آصف زرداری نے صدر کے اختیارات اسمبلی کو واپس کر دیئے اورصدر کے حکومت کو گھر بھیجنے کے اختیار ات ختم ہو گئے۔ اب جو مذاق مذاق میں ایک دوسرے کو کرپٹ کا خطاب دیا جاتا تھا وہ سیاست دانوں کے گلے پڑ گیا اور پرویز مشرف کی نیب نے اِن کو گھیر لیا ۔ اب نیب ہے اور سیاست دان ہیں یعنی اب سیاست دان جان چھڑانا چاہتے ہیں مگر اب کمبل ان کو لپٹ ہی گیا ہے۔کرپشن کسی نے کی ہو یا نہ ہو مگر نیب کے ہاں حاضریاں باقاعدہ لگائی جا رہی ہیں اور موجودہ حکومت جس نے الیکشن جیتا ہی کرپشن ختم کرنے کے نام پر ہے اس کو بھی وختہ پڑا ہو ا ہے کہ نہ کرپشن ثابت ہو رہی ہے اور نہ حکومت کے اراکین کے منہ سے کرپشن کے الفاظ ختم ہو رہے ہیں اور یہ مذاق سب کے گلے پڑا ہوا ہے۔اگر چہ گزشتہ دنوں نیب کے چیئرمین نے ادارے کی کمزوریوں اور نیب عدالتوں کی کمی کا رونا رویا کہ سٹاف کم ہے تو پھر کسی طرح ان ڈھیر سارے مقدمات کا فیصلہ مقررہ وقت میں ہوسکے گا۔ حقیقت جو بھی ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر احتساب ہونا ہے تو بے لاگ ہو اور بلا امتیاز اور ملک کے وسائل لوٹنے والوں کو کسی بھی حالت میں معاف نہیں کیا جائے چاہے اس کا تعلق حزب اختلاف سے ہو یا حکمران جماعت سے۔