بارش کے بعد

 بارش اور پھر ساون کی بارش بہت سی دعاو¿ں کے بعد آیا کرتی ہے۔ اس لئے کہ اساڑھ کی گرمی اور دھوپ نے عوام کا برا حال کیا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ مکئی وغیرہ کی فصلوں کی بوائی کا وقت بھی ہوتا ہے اس لئے لوگ اس وقت میں بارش کےلئے دعائیں کرتے ہیں اور اللہ اپنے فضل سے مینہ برساتا ہے اور اللہ کی زمین سیراب ہوتی ہے ۔ فصلیں بوئی جاتی ہیں اورپہاڑوں پر مویشیوںکا داخلہ بند کر دیا جاتا ہے کہ اس دوران پہاڑوںپر گھاس پید ا ہوتا ہے جسے کاٹ کر رکھ لیا جاتا ہے اور سردیوں میں جب مویشیوں کو سردی اور بارش کی وجہ سے باہر نہ نکالا جا سکے تو یہ گھاس اُن کے کام آتا ہے۔ یہی ہماری دیہاتی زندگی کے کچھ مخصوص اطوار ہیںاور اس میںایک خاص مزا ہوتا ہے جو شہری زندگی میں ناپیدہے۔ دیہات میں جو بارشیںہوتی ہیں تو یہ زندگی کی نمو کا ذریعہ ہوتی ہیں اس لئے کہ ایک تو یہ فصلوں کی بڑھوتری کے لئے اہم ہوتی ہیں اور دوسرا اس سے جو سبزہ اُگتا ہے وہ ہمارے مویشیوں کے چارے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ دیہاتوں میں آبادی عام طور پر اتنی زیادہ گنجان نہیں ہوتی اس لئے بارش کا پانی کبھی بھی سیلاب کی شکل اختیار نہیں کرتا کہ جیسے ہی بارش ہوتی ہے پانی چھتوںسے گلیوں میں اور گلیوں سے نالوں میں چلا جاتا ہے اور یہ کسی بھی قسم کا نقصان نہ گھروں کو پہنچاتا ہے اور نہ اس سے کھیتوں کھلیانوں کو نقصان پہنچتا ہے ۔ شہروںمیں بات البتہ ذرا مختلف ہو تی ہے ۔ جن شہروں میں آبادی منصوبہ بندی سے ہوتی ہے وہاں پانی کی نکاسی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے او ربارشوں میں اتنا نقصان نہیںہوتا مگر پاکستان میں کچھ عرصہ سے ایک غلط ٹرینڈ چل نکلا ہے کہ لوگوں نے دیہاتوں سے شہروں کا رخ کر لیا ہے اور جس کو جہاں جگہ ملتی ہے وہ وہاں اپنے سر چھپانے کی جگہ بنا لیتا ہے اس سے شہروں میں پانی کی نکاسی کابڑا مسئلہ پید ا ہو گیا ہے۔

 خصوصاً کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں یہ مسئلہ بہت ہی گھمبیر ہو گیا ہے۔ جب بھی ساون کی بارشیں شروع ہوتی ہیں تو لاہور اور کراچی میں تو یہ مسئلہ ایک بڑی تباہی کاذریعہ بنا ہوا ہے ۔ جس طرح سے بے ہنگم آبادی ان شہروں میںہو گئی ہے اس سے پانی کی نکاسی کامسئلہ اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ کوئی بھی حکومت اس کاحل نہیں نکال سکتی۔ ابھی جو کراچی میں بادل ذرا سا کھل کے برسے تو کراچی کا یہ حال ہو گیا کہ نہ کوئی سڑک بچ سکی اور نہ کوئی گلی محلہ۔ سڑکوں کا پانی دریا کی صورت میں گلیوںمیں داخل ہواا ور گلیوں سے لوگوں کے گھروں میں ایسی تانک جھانک کی کہ لوگوں کی کوئی بھی بجلی سے چلنے والی چیز بچ پائی اور نہ کوئی بستروں کی الماری ۔ نتیجہ کہ گھروں کے باسی گلیوں میں اور پانی گھروں میں ان کی جگہ۔

 اب کراچی کے باسی سندھ کی حکومت اور کراچی کی حکومت سے گلہ مند ہیںکہ اُن کی مدد نہیں کی گئی مگر کیا جب کراچی کے باسی جگہ جگہ اپنے گھر بنا رہے تھے تو کیا انہوں نے کراچی کی انتظامیہ سے کچھ پوچھا تھا‘ اس میں حکومتوں کی نالائقی کو بھی شامل کیا جانا چاہئے کہ اس نے کبھی بھی شہروںکے لئے کوئی بھی منصوبہ تیار نہیں کیا‘ سارے کارخانے ایک شہر میں اکٹھے کر لئے جس سے پورے ملک کی آبادی کو اس ایک شہر میں شفٹ ہونا پڑا۔ اس لئے کہ انسان وہیںپہ اپنا مسکن بناتا ہے کہ جہاں اُس کی روزی روٹی کا بندوبست ہو پائے۔سرمایہ داروں نے اپنا پیسہ اس شہر میںاس لئے لگایا کہ یہاں سے اپنے مال کو ایکسپورٹ کرنا آسان رہے گا۔ اگر حکومت ایسابندوبست کرتی اور کارخانوں کو ایسے علاقوںمیں لگاتی کہ جہاں سے ان کوخام مال آسانی سے مل سکتاتو بات یہ نہ ہوتی اور کراچی اور لاہور پر اتنا بوجھ نہ پڑتا ۔