چینی سکینڈل

چینی اسکینڈل, مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے ملک میں حالیہ چینی اسکینڈل خاص طور پر برآمدات پر ملز مالکان کو دی گئی چینی کی سبسڈی کے معاملے میں تحقیقات کے لیے کمبائنڈ انویسٹی گیشن ٹیم (سی آئی ٹی) تشکیل دے دی گئی۔ ذرائع کے مطابق ,وفاقی حکومت کی جانب سے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے لکھے گئے خط کے موصول ہونے کے بعد نیب ہیڈکوارٹرز نے چینی کی سبسڈی کا معاملہ نیب راولپنڈی بیورو کو ارسال کیا۔ جس پر ڈائریکٹر جنرل نیب راولپنڈی عرفان منگی کی سربراہی میں اجلاس طلب کیا گیا,جس میں کمبائنڈ انویسٹی گیشن ٹیم (سی آئی ٹی) تشکیل دی گئی۔ واضح رہے کہ اس معاملے کی تحقیقات کے سلسلے میں مختلف محکموں کو مختلف زاویوں اور پہلوؤں کے ذریعے اسکینڈل کی تحقیقات کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ اس سے قبل عرفان منگی سپریم کورٹ کی جانب سے قائم کی گئی اس مشترکہ تحقیقات ٹیم کے اراکین میں سے ایک تھے جس نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مشہور پاناما لیکس کیس کی تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ سابق صدر آصف علی زرداری سمیت پاکستان پیپلزپارٹی ( پی پی پی) کی اعلیٰ قیادت کے خلاف ہونے والی جعلی اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات کے سربراہ بھی ہیں۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ سی آئی ٹی چینی پر برآمدی سبسڈی کے حوالے سے تمام متعلقہ محکموں سے ریکارڈ طلب کرے گی جبکہ تحقیقاتی ٹیم سوالات کے لیے شوگر ملز مالکان کو بھی طلب کرے گی۔ واضح رہے کہ 28 جولائی کو وفاقی حکومت نے متعلہ حکام کو ہدایت کی تھی کہ وہ چینی مافیا کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کا آغاز کریں اور 90 روز میں اپنی رپورٹ پیش کریں۔ وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب اور داخلہ مرزا شہزاد اکبر نے وزیراعظم عمران خان سے مشاورت کے بعد اسٹیٹ بنک پاکستان، مسابقتی کمیشن پاکستان اور پنجاب، خیبرپختونخوا، سندھ کے چیف سیکریٹریز کو الگ الگ خط لکھا تھا اور ان سے فرانزک آڈٹ کی رپورٹ کی روشنی میں چینی مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کا کہا تھا۔ علاوہ ازیں, اس سے قبل ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہاتھا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔ انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ بعدازاں حکومت چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ کا [فرانزک آڈٹ کرنے والے کمیشن کی حتمی رپورٹ مئی میں سامنے لائی تھی جس کے مطابق چینی کی پیداوار میں 51 فیصد حصہ رکھنے والے 6 گروہ کا آڈٹ کیا گیا جن میں سے الائنس ملز، جے ڈی ڈبلیو گروپ اور العربیہ مل اوور انوائسنگ، دو کھاتے رکھنے اور بے نامی فروخت میں ملوث پائے گئے۔ شہزاد اکبر نے کہا تھا انکوائری کمیشن کو مل مالکان کی جانب سے 2، 2 کھاتے رکھنے کے شواہد ملے ہیں، ایک کھاتہ سرکاری اداروں جیسا کہ ایس ای سی پی، ایف بی آر کو دکھایا جاتا ہے اور دوسرا سیٹھ کو دکھایا جاتا ہے جس میں اصل منافع موجود ہوتا ہے۔ معاون خصوصی نے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن کے مطابق اس وقت ملک میں شوگر ملز ایک کارٹیل کے طور پر کام کررہی ہیں اور کارٹیلائزیشن کو روکنے والا ریگولیٹر ادارہ مسابقتی کمیشن پاکستان اس کو روک نہیں پارہا، 2009 میں مسابقتی کمیشن نے کارٹیلائزیشن سے متعلق رپورٹ کیا تھا جس کے خلاف تمام ملز مالکان میدان میں آگئے تھے۔ چنانچہ 7 جون کو وزیر اعظم عمران خان نے شوگر کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں چینی اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف سفارشات اور سزا کو منظور کرتے ہوئے کارروائی کی ہدایت کی تھی۔