ایک روز کسی انگریز خاتون نے صالح آپا کو بتایا کہ اگر پلاٹینم کے زیورات کو موٹے باجرے کے آٹے میں رکھا جائے تو ان کی چمک میں بڑا اضافہ ہوتا ہے اور یہ بہت صاف ستھرے ہوجاتے ہےں آپا صالح کو بھی اس خاتون کی بات بڑی دل کو لگی چنانچہ انہوں نے باجرے کا آٹا حاصل کیااور اس میں اپنے کان کے دوبالے دبادیئے صبح اٹھ کر انہوں نے آٹے کی پڑیا کھولی اور وہ حیران رہ گئیں کہ آٹے میں صرف ایک ہی بالا تھا اور دوسرا بالا موجود نہےں تھا اب وہ پریشان ہوگئیں کیونکہ پلاٹینم کا بالا کچھ کم قیمت کا تو ہوتا نہےں اس کمرے میں سوائے ان کے اور ارشد بھائی(ان کے خاوند) کے کوئی تھا بھی نہےں اب جب ارشد بھائی غسل خانے سے شیو بنانے کے بعد باہر نکلے تو آپا صالح کہتی ہےں کہ مجھے پہلی مرتبہ باوجود اس کے کہ وہ میرے خاوند ہےں اور ہماری شادی کو 21برس ہوگئے ہےں ۔
لیکن وہ مجھے چہرے سے ایک چور سے نظر آئے اور ایسے محسوس ہواکہ انہوں نے راتوں رات وہ بالاچرالیا ہے اور وہاں پہنچانے کی کوشش کی ہے جہاں میری منگنی سے پہلے ا ن کی کسی دوسری رشتہ دار لڑکی کے ساتھ منگنی طے ہورہی تھی اب ارشد بھائی اور صالح آپا کے درمیان ایک بہت بڑی خلیج حائل ہوگئی اور وہ شک وشبہ میں زندگی بسر کرنے لگے پانچویں روز اس کمرے سے تھوڑی سی بدبو کے آثار پیدا ہوئے شام تک وہ بدبو کافی بڑھ گئی پھر یہ ڈھونڈیا پڑی کہ وہ بدبو کہاں سے آرہی ہے چنانچہ سارے کونے کھدرے تلاش کئے گئے اور ایک بڑا سا قالین جو کہ اخباروں کے اوپر پڑا ہوا تھا اور پرانے اخباروں کی ٹوکری اس پراوندھی لیٹی ہوئی تھی جب وہ اٹھا کر دیکھا گیا تو اس کے نیچے ایک چوہا مرا ہوا پڑا تھا اور اس چوہے کے گلے میں وہ پلاٹینم کا بالا پھنسا ہوا تھا۔اس طرح وہ شک ختم ہوا ۔
(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)