کشمیر کی وادی پر بھارت کے شب خون اور آئینی وعسکری تسلط کو مضبوط کرنے کے ایک سال مکمل ہونے پر 5 اگست کو ”یوم استحصال“ منانے کا فیصلہ اگرچہ کشمیریوں پر بھارتی ظلم وستم کا مداوا نہیں لیکن اس سے کشمیریوں کو یہ احساس دلانے میں ضرور مددملے گی کہ پاکستان کے عوام اور حکومت ان کے ساتھ ہیں، اس دن ایک منٹ کی علامتی خاموشی سے لیکر جلسے جلوس اور اظہار یکجہتی کے تمام مروجہ طریقے اپنائے جائیں گے۔ اس سے پہلے پاکستانی مستقل طورپر یوم یکجہتی کشمیر اور یوم شہداءمناتے آرہے ہیں۔ 5 اگست کا دن گزشتہ 72 سالوں کے تسلط اور فوجی محاصرے کے مقابلے میں سخت ترین دن ہے۔ اس دن بھارت سرکارنے کشمیر اور کشمیریوں سے وہ تشخص بھی چھین لیا جس کی بھارتی آئین ضمانت دیتا تھا یہ بات تاریخی اعتبار سے مصدقہ ہے کہ کشمیری ایک الگ قوم ہیں ۔ بھارت کے آئین میں مہاراجہ کشمیر کی طرف سے بھارت کے ساتھ الحاق کے معاہدے کو ناقابل تنسیخ قرار دیتے ہوئے اس کو مکمل تحفظ دیا تھا۔ ( یہ الگ بات ہے کہ یہ الحاق بھی جبری تھا اور اس میں کشمیری عوام کی مرضی شامل نہیں تھی) اس معاہدے کے مطابق کشمیر کی املاک صرف جدی پشتی کشمیریوں کو ہی منتقل ہوسکتی تھی کسی غیر کشمیری کو کشمیر کے کسی ضلع کا ڈومیسائل نہیں مل سکتا تھا۔ کوئی غیر کشمیری جائیداد خرید سکتا تھا نہ ہی سرکاری نوکری حاصل کرسکتا تھا۔ بھارتی زیر قبضہ علاقوں میں پہلے حکومتی انتظام بھی الگ تھا اور ریاستی سربراہ لیفٹیننٹ گورنر جبکہ انتظامی سربراہ وزیراعظم کہلاتا تھا اس کا مقصد کشمیر کی حیثیت اور شناخت برقرار رکھنا تھا۔
لیکن بعد میں دیگر ریاستوں سے مطابقت کے لئے یہاں بھی گورنر اور وزیراعلیٰ کر دئیے گئے لیکن 5 اگست 2019 کو مودی سرکاری نے ایک ایسی ملی بھگت کے تحت کشمیریوں کی شناخت اور خصوصی حیثیت بھی ختم کر دی اور کشمیریوں کی اکثریت ختم کرنے کیلئے ایک سال سے ہزاروں انتہا پسند ہندوﺅں کو کشمیر کے ڈومیسائل دئیے جارہے ہیں اور مخصوص علاقوں میں آر ایس ایس کے کارکن آباد کئے جارہے ہیں جبکہ اصل کشمیری اور کشمیری قیادت قید ونظر بندہے یا پھر کشمیر بدر ہے، پاکستان نے بھارتی اقدام سے لیکر آج تک نہ صرف کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیا ہے بلکہ اقوام متحدہ سے لیکر ہر عالمی فورم پر بھارت کے فاشسٹ چہرے کو بے نقاب کیاہے گزشتہ سال سلامتی کونسل کے سالانہ اجلاس سے وزیراعظم عمران خان کا خطاب ایک کھرے پاکستانی کی آواز تھی اور اس کے بعد اقوام عالم کابھارت کے بارے میں نظریہ تبدیل ہوا ہے اگرچہ امریکی صدر یا دیگر عالمی سربراہان مصلحتوں کا شکار ہیں اور بھارت کی براہ راست مذمت کرنے سے ہچکچاتے ہیں لیکن مختلف پارلیمنٹس اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے کشمیر اور بھارت کی دیگر ریاستوں میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور اقلیتوں پر ظلم کی شدید مذمت کی ہے لیکن بھارت کی موجودہ قیادت جس ہندو تعصب اور مذہبی جنون میں مبتلا ہے ۔
اس پر عالمی تشویش کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا یہ ایک المیہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی دنیا اتنے ننگے جرم اور کھلی ریاست دہشت گردی پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ہمیں تو مسلمان ممالک کی تنظیم اوآئی سی سےبھی گلہ ہے کہ اس تنظیم نے بھی کشمیریوں کے لئے موثر آواز نہیں اٹھائی، اگرچہ ترکی اور ایران جیسے برادر ممالک نے کھل کر پاکستانی موقف کی حمایت کی ہے اور بھارت کے اقدام کی مذمت بھی کی ہے اس کے ساتھ چین نے پاکستان کا ساتھ دیاہے لیکن باقی دنیا عملی طورپر بھارت کی پشت پناہی کر رہی ہے، پاکستان سفارتی سطح پر جس حد تک کشمیریوں کے لئے کرسکتا ہے وہ بہرحال کررہا ہے، البتہ کشمیریوں کی چوتھی نسل اپنی آزادی کی جنگ خود لڑ رہی ہے۔ یوم استحصال منانے سے ان کشمیری حریت پسندوں کو بھی حوصلہ ملے گا جو اپنی دھرتی ماں کیلئے جانیں قربان کر رہے ہیں۔ایسے حالات میں کہ عالمی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی ایک بار پھر دنیا کومختلف بلاکوں میں تقسیم کرنے لگی ہے کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لئے فعال اور موثر سفارتی کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ عالمی برادری کویہاں پر ہونے والے بھارتی مظالم اور کشمیر کے مظلوم عوام کی حالت زار سے نہ صرف باخبر رکھا جائے بلکہ ان کی رائے اس طرف موڑی جائے کہ وہ بھارت سے معاشی فوائد کے بدلے میں کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم سے چشم پوشی نہ کرے بلکہ بھارت کو مجبور کرے کہ وہ اقوام عالم اورعالمی اداروں کی طرف سے منظور شدہ قرار دادوں پر عمل درآمد کرے۔