خاموش سوالات

 امجد اسلام امجد کینیڈا کے جمہوری اداروں سے متعلق لکھتے ہےں کہ انور نسیم نے کہا‘ چلئے آپ کو آٹوا کی سیرکرائیں!سردار جعفری کو بھارتی سفارت خانے کے فرسٹ سیکرٹری عتری صاحب کی طرف جانا تھا اور عالی جی کے سونے کا وقت ہوگیا تھا چنانچہ آخر میں اس دعوت پر لبیک کہنے کے لئے میں اور پروین ہی رہ گئے۔اسلام آباد کو کسی نے ’کنکریٹ آئی لینڈ‘ کا نام دیا تھا کہ وہاں سنگ وخشت کے مختلف ڈھانچوں میں انسانوں کے بھیس میں ان کے گریڈ رہتے ہےں آٹوابھی بیورو کریٹوں کا شہر ہے لیکن اس کی فضا میں بیورو کریسی کی خوشبو تو ہے سانس روک دینے والی گھٹن نہےں‘ اسلام آباد سے آٹوا کی ایک اور مماثلت اس کا جڑواں شہر ہل بھی ہے فرق صرف یہ ہے کہ پنڈی اور اسلام آباد کے درمیان سڑک ہے جب کہ آٹوا اور ہل کے درمیان دریائے آٹوا بہتا ہے جس کے کنارے سٹی ہال کی آٹھ منزلہ خوبصورت عمارت ہے جس کے مختلف پل دونوں شہروں کے درمیان نقطہ ہائے وصال کی طرح گزرنے والوں کو مشتاق نگاہوں سے دیکھتے رہتے ہےں۔

راستے میں وزیراعظم اور گورنر جنرل کے بنگلے دیکھے گورنر جنرل کی رہائش گاہ کے ایک محدود حصے کو چھوڑ کر سارا گھر عوام کی آمدروفت کے لئے چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے جمہوری نظام کے حوالے سے حزب اختلاف کی جو توقیر کینیڈا میں ہے وہ اپنی جگہ پر ایک روایت بننے کی حقدار ہے‘ قومی پارلیمنٹ ہاﺅس کی بلندوبالا ‘خوبصورت اور پروقار عمارتوں میں حکومتی پارٹی اور حزب اختلاف کو اپنے دفاتر اور دیگر ضروریات کے لئے علیحدہ علیحدہ عمارتیں دی گئی ہےں لیکن اس امر کا خصوصی لحاظ رکھا گیا ہے کہ ہر وہ سہولت جو حکومتی پارٹی کی عمارت کو حاصل ہے دوسری عمارت میں بھی بالکل اسی معیار اور مقدار کے ساتھ موجود ہو پارلیمنٹ کی عمارت کی سیر کے دوران میں نے پروین کی طرف جب بھی دیکھا وہ مجھے کسی گہری سوچ میں ڈوبی نظر آئی شاید اس کے ذہن میں بھی وہی سوال مچل رہے تھے جن کی آتش خاموش کے شعلے میری آنکھوں میں بے محاباجل رہے تھے۔