یوں تو ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکل ہی آتا ہے ہاں اگر فریقین متفق ہو جائیں تو پاکستا ن اور ہندوستان کی بات الگ ہے ۔ ان میں جو بھی مسائل ہیںوہ آج کے نہیں ہیں بلکہ جب سے یہ دونوںدیش معرض وجود میں آئے ہیں تب سے مسائل ان کے درمیان موجود ہیں اور کچھ تو لا ینحل کی حدوںکو چھورہے ہیں‘وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کی قیادت کا خیال یہ ہے کہ چونکہ پاکستان ان کے ملک کے مقابلے میں بہت چھوٹا ہے اور ہم صدیوں ساتھ رہے ہیں اس لئے پاکستان کو ہماری بات ماننی چاہئے کہ اب ہم بڑے ہیں ‘ جب تک مسلمانوں کی حکومت اس ملک میں تھی اس تک تو ہندو مسلمانوں کا کہا مانتے رہے تھے اور اب چونکہ اُن کی جسامت بڑی ہے اس لئے پاکستا ن کو ہندوﺅں کی بات ماننی چاہئے بلکہ اُن کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہئے‘ اب مسئلہ یہ ہے کہ جب سے مسلمان اس ملک میںآئے ہیںاس وقت سے لے کر انگریزوں کی اس ملک میںآمد تک جو صدیوں پر محیط ہے مسلمانو ںنے ہمیشہ حکم دیا ہے اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس کو وہ صدیوں سے حکم دیتے آئے ہیں اب اس کا حکم مانیں‘بس یہی سے جھگڑا کھڑا ہو ا ہے‘ اب پاکستا ن یہ کر نہیں سکتا کہ ہندوستان کی بالا دستی قبول کرے اور ہندوستان کی خواہش یہی ہے کہ اُس کی بالا دستی اس خطے میں ہو اور دنیاکی بڑی طاقتیں بھی یہی چاہتی ہیں۔
مگر پاکستان کے لئے یہ بات قبول کرنا ممکن نہیں ہے‘ ہندوستا ن نے تقسیم کے وقت پاکستان کے حصے میں آنے والی کچھ ریاستوں کو زبردستی اپنے ساتھ ملا لیا تھا جن میں حیدر آباد دکن کی ریاست اور کئی دوسری ریاستیں کہ جہاں تک پاکستان کی پہنچ نہیں تھی یعنی یہ ہندوستان کے اندر اس طرح سے تھیں کہ پاکستان وہاں تک پہنچ نہیںسکتا تھا اس لئے کہ ان کے بیچ میں ہندوستان کا ایک بڑا حصہ آتا تھا‘ چنانچہ ان ریاستوں پر پاکستان نے اپنا حق چھوڑ دیا مگر ریاست جموں و کشمیر ایک تو مسلمان اکثریت کا علاقہ تھا اور دوسرے اس کی بڑی آبادی کی خواہش یہی تھی کہ اُن کا الحاق پاکستا ن کے ساتھ ہو ‘ کشمیر کا ایک بڑا حصہ تو پاکستان کے قبائلی جنگجوﺅں نے ہندوستان کی دسترس سے آزاد کروا لیا تھا مگر جب وہ وادی تک پہنچے تو ہندوستان اس مسئلہ کو اقوام متحدہ میں لے گیا اور وہاں یہ فیصلہ ہوا کہ اس مسئلے کا حل کشمیریوں کی آزادانہ رائے شماری سے ہو گا۔
‘ پچھلے سال پانچ اگست کو مودی سرکار نے زبردستی اپنی فوجیں اس خطے میں داخل کر کے کشمیریوں کو اپنے گھروں میں قید کر دیا اور ان کی آواز کو بالکل دبا دیا کہ نہ وہاں سے کوئی آواز باہر آ سکتی ہے اور نہ باہر سے کوئی ان تک پہنچ سکتا ہے یہاں تک کہ یو این او کو بھی وہاں تک رسائی نہیں دی جاتی اور اس دفعہ پانچ اگست کو مقبوضہ کشمیر کے ساتھ یکجہتی منانے کے لئے پاکستان میں سرکاری طور پر اس دن کی یاد کومنایا گیا کہ جب مودی سرکار نے کشمیر پر چڑھائی کر دی تھی اور آج تک کشمیریوں کو عملی طور پر قید کر رکھا ہے‘ یہ کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہارکے لئے کیا گیا ۔ ہما رے و زیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس مسئلے کا حل نہایت ہی ساد ہ نکالا کہ نہ پاکستان فوج کشی کر ے اور نہ ہندوستان اپنی فوجوں کو تکلیف دے بس اتنا کر لیتے ہیں کہ نریندر مودی مظفر آباد آ کر کشمیریوں سے خطاب کرے اور عمرا ن خان سری نگر میں جا کر وہاں کے کشمیریوں سے خطاب کرے تو یہ خطاب اس بات کا فیصلہ کر دیں گے کہ کشمیری کس ملک کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔