بغدادکافرینکن سٹائن اور

 میں تذکرہ کررہا تھا ان مسلمان ناول نگاروں کا جو میری نظری میں مارکیز‘ سراماگو اور میلان کندیرا کے نہ صرف ہم پلہ ہیں بلکہ اسماعیل قدارے البانیہ کا ان پر بھی سبقت رکھتا ہے... میرا گھراناکچھ ترکی ترکی سا ہے یعنی میرے بڑے بیٹے کا نام سلجوق ہے اوربڑے پوتے کا نام ترک ناول نگار یاشارکمال کے نام پر یاشار ہے... سلجوق جن زمانوں میں نیشنل کالج آف آرٹس میں آرکٹیکچر کا طالب علم تھا وہ اپنے کلاس فیلوز کے ہمراہ ترکی کی سیاحت پر گھر سے نکلا... اور پہلی بار گھر سے نکلا اور میرا دل ڈوب ڈوب جاتا تھا اور جب میں نے اسے سفر کیلئے اپنا رک سیک پیک کرتے دیکھا تو بالکل ہی ڈوب گیا کہ ہائے میرا بچہ ایک اجنبی دیس میں دربدر ہوگا جی چاہا کہ اسے روک لوں اور پھر خیال آیاکہ بھائی جان ذرا نصف صدی پیشتر کے فلیش بیک میں چلے جایئے... جب آپ اپنا رک سیک اٹھاکر دربدر ہونے کیلئے نکلتے تھے تو کیا آپکے ابا جی کا دل نہیں ڈوبتا تھا...تو وہ کیاکہتے تھے سیانے کہ باپ پہ پوت‘ پتا پہ گھوڑا‘ بہتا نہیں تو تھوڑا تھوڑا... تو سلجوق اگر بہتا نہیں تو تھوڑا تھوڑا تم پرگیا ہے تو اسے مت روکو...دل کو ڈوب جانے دو...میں نے سلجوق کے رک سیک میں اپنا سفر نامہ” خانہ بدوش“ رکھا اور کہاکہ بیٹے استنبول پہنچ کر وہاں میرے پسندیدہ ناول نگار یاشار کمال کو تلاش کرنا کہ وہ اسی شہر میں رہتا ہے اور اسے میرا سفرنامہ پیش کرکے کہنا کہ یہ آپکے ایک پاکستانی مداح کی جانب سے ہے‘ آپ اسے پڑھ نہیں سکتے نہ سہی...اپنی لائبریری کے ڈھیر میں بے شک پھینک دیجئے میرے لئے یہی کافی ہوگا... سلجوق واپس آیا توکہنے لگا‘ ابا جی آپ تو مجھے مروانے لگے تھے میں یاشار کمال کاایڈریس حاصل کرنے کیلئے استنبول کے پریس کلب میں پہنچا کہ وہاں کے صحافی اور ادیب مجھے اسکے گھر تک بخوشی پہنچا دینگے...

 لیکن جونہی میں نے یاشار کمال کا نام لیا تو ہرسو سناٹا چھاگیا ایک نوجوان ترک صحافی مجھے کلب سے باہر لے گیا اور کہنے لگا”اے پاکستانی طالب علم‘ تم نے یہ کیا غضب کیا... یاشار کمال کا نام لینا یا اس کا تذکرہ ترکی میں کرنا تقریباً ایک جرم ہے چپکے سے چلے جاﺅ ورنہ ممکن ہے کہ تم کسی مصیبت میں پڑ جاﺅ“ اسی دورے کے دوران سلجوق خصوصی طورپر اپنے ہم نام شہر” سلجوق“ گیا تو وہاں سے ایک پکچر پوسٹ کارڈ روانہ کیا جسکی پشت پر لکھا تھا ”سلجوق فرام سلجوق“ اب منظر نامہ تبدیل ہوتا ہے‘ بہت عرصے کے بعد چھوٹا بیٹا سمیر بھی کسی سلسلے میں استنبول جارہا ہے اور میں اس سے فرمائش کرتا ہوں کہ تم جانتے ہو کہ میرے ایک اور پسندید ناول نگار ارہان پاموک نے اپنے ناول’اے میوزیم آف انوسنس‘ یعنی’معصومیت کا ایک عجائب گھر‘کو بنیاد بناکر استنبول میں واقعی ایک ایسا میوزیم قائم کیا ہے جس میں اس ناول کی محبوبہ افسوں کی یادگار میں محفوظ ہیں اسکے میک اپ کا سامان جوتے‘ لباس کانوں کے جھمکے‘ کمرے کا ماڈل اور وہ بجھا ہوا آئینہ جس میں وہ اپنی شکل دیکھتی تھی اور سمیر نے خصوصی طورپر یہ میوزیم دیکھا اور میرے لئے اس کا ایک پوسٹر لے کر آیا‘ ارہان پاموک‘ ادب کا نوبل انعام یافتہ بین الاقوامی شہرت یافتہ اور کہاں مےں... ایک موقع پر ارہان پاموک نے کولمبیا یونیورسٹی نیویارک میں ایک لیکچر دیااورچونکہ سلجوق نے بھی اسی آئیوی لیگ یونیورسٹی سے بین الاقوامی امور کے موضوع پر ڈگری حاصل کی تھی تو اسے بھی مدعو کیاگیا۔

پاموک نے اسے مداحوں کے ہجوم میں خصوصی توجہ سے نوازا کہ تمہارا نام ترک ہے... اور تمہارے بھتیجے کا نام بھی یاشار ہے تو ہم دونوں کے درمیان ایک ترک بندھن ہے پاموک نے صرف سلجوق کو اپنا ذاتی ایڈریس اور ای میل دی اور کہاکہ نوجوان مجھے اطلاع کرتے رہنا لیکن جواب کیلئے تنگ نہ کرنا... بعدازاں سلجوق نے میرے ناول ’اے غزال شب‘ کا انگریزی ترجمہ’لینن فارسیل‘ روانہ کیا پاموک ابھی تک خاموش ہے‘ حضور یہ جو میں نے اتنا بکھیڑا کیا ہے دنیا بھر کے مسلمان ناول نگاروں کے تذکرے کئے ہیں تو یونہی بے وجہ تو نہیں کئے‘ میں آپ کو شریک کرنا چاہتا ہوں چند اور لبنانی‘ بغدادی اور مصری ادیبوں کی تخلیقات میں‘ اگر میں نے نہیں تو آپ نے بھی کہاں سن رکھا ہوگا کہ ایک ناول نگار احمدی سعدوی نام کا ہے جس نے ایک ہولناک ناول” فرینکن سٹائن ان بغداد“ لکھا ہے اور کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کا موضوع کیا ہے‘ فرینکن سٹائن مختلف لاشوں کے حصوں کو جوڑ کر ایک سائنسدان نے تخلیق کیا تھا لیکن بغداد میں امریکی حملے کے بعد جو فرینکن سٹائن وجود میں آیا ہے وہ ان لاشوں کے بدنی پرخچوں سے جوڑاگیا ہے جو آئے دن کے دھماکوں سے اڑتے رہتے ہیں ‘ میں نے بک شیلف سے ایک ناول اسلئے اٹھالیا کہ اس کا عنوان نہایت لرزہ خیز تھا... کسی سنان انتون کا تحریر کردہ” لاشوں کو نہلانے والے“سنان جو میرے ناول’ پےار کا پہلا شہر‘ کے ہیرو کا ہم نام ہے ایک ایسی دنیا تخلیق کرتا ہے جہاں دکھ کے سمندر ہیں اور ہوائیں ماتم کرتی ہیں‘ سنان انتون بھی نیویارک یونیورسٹی میں پڑھاتا ہے۔

لاشوں کو نہلانے والے‘ ایک ایسا ناول ہے جو راتوں کو آپ کو سونے نہیں دیتا‘شہر بغداد میں ایک آبائی غسال ہے جسکے باپ دادا بھی لاشوں کو غسل دینے کا پیشہ اختیار کئے ہوئے تھے نوجوان جواد نہیں چاہتا کہ وہ بھی اپنے باپ کی مانند لاشوں کو نہلاتے‘ انہیں کفناتے اور ان پر کافور چھڑکتے اپنی زندگی گزار دے اور وہ بغداد اکیڈمی آف فائن آرٹس میں داخلہ لےکر ایک شاندار مصور کی صورت میں ابھرتا ہے اور پھر امریکہ حملہ کر دیتا ہے‘ سب کچھ پریشان اور بکھر جاتا ہے‘ جواد مجبوراً پھر سے لاشیں نہلانے لگتا ہے‘ ‘ میں نے بک شیلف پر سجی ایک ایسی کتاب دیکھی جس پر نجیب محفوظ کا ہم شکل چہرہ تھا” آن لٹریچر اینڈ فلاسفی“ اس کے مضامین کا مجموعہ تھا اور جب گھر آیا تو نجیب محفوظ کے مضامین کے عنوان پڑھے تو میری سٹی گم ہوگئی کہ اتنا ڈھیر سارا فلسفہ مجھے کہاں ہضم ہوتا تھا‘ مثلاً سقراط کا فلسفہ‘ فلسفے کا مطلب کیا ہے؟ آہن کیا ہے؟ محبت اور کشش وغیرہ... تو میں نے ان دقیق مضامین کو چوم کے چھوڑ دیا... آپ یقینا آگاہ ہونگے ‘عرب بلکہ مسلم دنیا کے سب سے پہلے ادب کے نوبل انعام یافتہ ادیب نجیب محفوظ کو مصر کوبہت دھمکیاں روانہ کی گئیں‘ انہیں جان کا خطرہ لاحق ہوا‘ ارہان پاموک کو بھی بہت رگیدا گیا... ترکوں نے کرد یاشار کمال کو قبول نہ کیا ‘ آپ کچھ نہ کریں صرف اسماعیل قدارے اور سنان انتون کے ناول پڑھ لیں تو آپ پر عیاں ہو جائیگا کہ انکے مقابلے میں اردو ناول کہاں ٹھہرتے ہیں...