ہاڑ کی جلتی دوپہروں اور رات کے ہُسڑ سے تنگ آئے لوگ اللہ کے حضور زاریاں کرتے ہیں کہ ان پر رحمت کی بارش ہو جائے ‘ ادھر فصلوں کی بوائی کے بھی دن ہوتے ہیں اس لئے زاریاں کچھ زیادہ ہی ہو جاتی ہیں اور اللہ کریم ساون کوبھیج دیتے ہیں اور ساون جو آتا ہے تو جل تھل ایک کر دیتا ہے‘ جہاں تک پہاڑوں کے باسیوںکاتعلق ہے وہ اس بارش سے لطف اندوز ہوتے ہیںاور اپنی مکی کی فصل کی بھی بوائی کرتے ہیں اور پھر ان بارشوں ہی کے سبب اللہ کریم ان پر مہربان ہوتا ہے اور ان کی فصلیں اُن کی چھ ماہ کے راشن کا بندوبست کر دیتی ہیں مگر یہی بارشیں میدانی علاقوںمیںجا کر سیلاب کی صورت اختیار کر لیتی ہیں اور یہ سیلاب ہر سال لاکھوں کا نقصان کرتے ہیں ‘ بہت سے علاقوں میں دریا کٹائی کر کے لوگوں کی زمینوں کو بہالے جاتے ہیں اور بہت سی کھڑی فصلیں بھی تباہ ہو جاتی ہیں ‘ یہ سیلاب صرف تباہی کا ہی سبب نہیں ہوتے بلکہ ان میں کچھ راحتیں بھی چھپی ہوتی ہیں‘ میدانوں کی وہ زمینیں جو پیداوار دینے کے قابل نہیں رہتیں ان میںنئی زرخیز مٹی پہنچ جاتی ہے اور یہ زمینیں پھر سے پیداور دینے کے قابل ہو جاتی ہیں اور ان میں آنے والی فصلوں کی بہترین پیداوار حاصل ہوجاتی ہے مگر ایک بات ایسی ہے کہ جس کا ہمیں ہر سال سامنا ہوتاہے وہ یہ کہ یہ سیلابی ریلے بہت سا نقصان بھی کرتے ہیں ‘ بہت سے لوگ بے گھر ہو جاتے ہیں اور بہت سے لوگ اپنی زمینوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ‘ یہ سلسلہ پاکستان بننے سے آج تک جاری ہے مگر حکومتیں اس طرف کم توجہ دیتی ہیں۔
جب سیلاب آتے ہیں اور صاحبان اقتدار ان میں اپنی کار کردگی دکھانے کے لئے دوڑتے پھرتے نظر آتے ہیں مگر آج تک اس مسئلے کا کوئی مستقل حل تلاش نہیں کر پائے ‘ڈیم ان کا بہترین حل ہو سکتے ہیں مگر اس میں بھی سیاست داخل ہو جاتی ہے ‘ کچھ ڈیم جو بن گئے اس کے بعد کچھ ضروری ڈیموں کو بھی متنازعہ بنا دیا گیا ‘اصل میں صورت حال یہ ہے کہ اس زرعی ملک کو اگر کوئی پھلتاپھولتا نہیں دیکھ سکتا تو وہ ہمار ا ازلی دشمن ہندوستان ہے ‘بھاشا ڈیم بھی ایک مدت تک متنازعہ رہا مگر جب بن گیا تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک سندھی تجزیہ نگار نے کہا کہ سندھ کا پانی روک دیا گیا ہے‘ اسی طرح جب بھی ایک نہایت ہی ضروری ڈیم کے لئے بات کی گئی تو سندھ اور خیبر پختونخوا کے کچھ عناصر اٹھ کھڑے ہوئے کہ اس ڈیم سے خیبر پختونخوا ڈوب جائے گا ہم نہیں سمجھ سکے کہ یہ کیسے ممکن ہو گا کہ مجوزہ ڈیم تو اٹک سے خاصہ نیچے بننے جارہا تھا ‘ادھر سندھ حکومت او رعوام اٹھ کھڑے ہوئے ہیںکہ اس سے سندھ کا پانی بند ہو جائے گا اور سندھ صحرا بن جائے گا‘ حالت یہ ہے کہ اس سے صرف پانی کو روک کر ضرورت کے مطابق پانی کھولا جائے گا تا کہ جو پانی سیلابوں کی صورت میں پنجاب اور سندھ میں تباہی مچاتا ہے اُس کو نکیل ڈالی جا سکے ‘ اگر ذرا سا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیا جائے تو ہندوستان نے ہمارے دریاو¿ں پر بند باندھ کر ایک تومعاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور دوسراہمارا پانی روک دیا ہے۔
ساتھ ہی اس پانی کو جنگی مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہے کہ جب چاہتا ہے ان میں پانی چھوڑکر پاکستان میں سیلابی صور ت حال پیدا کر دیتا ہے‘ جبکہ طے یہ ہوا ہے کہ جب بھی ہندوستان ان دریاو¿ں میں پانی چھوڑے گا تو اس سے پہلے پاکستان کو مطلع کریگا تاکہ اگر سیلابی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو پاکستان اس کا پہلے سے حفاظتی انتظام کر سکے مگر ایسا ہو نہیں رہا ‘ جب ہندوستان کا جی چاہتا ہے پاکستان کو زچ کرنے کے لئے اس بندوں سے پانی چھوڑ کر پاکستان میںسیلابی صورت حال پید اکر دیتا ہے‘ پاکستان اگر اپنی زمینوں کی سیرابی کے لئے بند بناتا ہے تو اس کی مخالفت خیبر پختونخوا اور سندھ سے شروع ہو جاتی ہے ‘ اگر ہمارے اپنے ملک کے باسی اس طرح کی بولی بولتے ہیں تو اس کے لئے افسوس ہی کیا جا سکتا ہے‘ آج کی بارشوں کے نقصان سے بچنے کے لئے دریاو¿ں پر بند باندھنے بہت ضروری ہےں اور یہ کام حکومت کو فرض سمجھ کر کرنا چاہئے۔