عیدکے بعدکوروناکی نئی لہر

 حکومت نے عید قربان کے بعد عیدکے کورونانتائج کا انتظار کے بغیر ہی پابندیاں نرم کرنے اور بازار‘ ریسٹورنٹ اور سیاحتی مقامات وغیرہ کھولنے کا اعلان کردیا ہے اس سے کاروبار طبقے کی خوشی تو دوبالا ہونی ہی تھی عوام کے دل سے کورونا کا احساس بھی حکومت کے اعلان کے ساتھ ختم ہوگیا تھا عوام کو تو چھوڑیں وزیراعظم اور حکومتی زعماءنے کورونا کو شکست دینے والے ملک کا اعزاز خود ہی اپنے سرلینا شروع کردیا تھا لیکن اب عید کے نتائج آنا شروع ہوچکے ہیں آج9اگست کے اعداد وشمار کے مطابق ملک میں کورونا کے مریض بڑھنے لگے ہیں3اگست کو کل نئے مریض330 سامنے آئے تھے4اگست کو یہ بڑھ کر432 ہوگئے5 اگست کو675‘6 اگست کو782 اور7گست کو842 نئے مریض سامنے آئے ہیں یہ قابل تشویش صورتحال ہے اور بالخصوص جب حکومت کی طرف سے سب اچھا کا تاثر دیا جانے لگے تو عوام نے احتیاط کا دامن چھوڑ دینا ہے عوام کا حال یہ ہے کہ مون سون میں زیادہ بارشوں کی پیشگوئی اور ملک بھر میں تباہ کن بارشوں کے باوجود پابندیاں اٹھتے ہی پہاڑی مقامات کی طرف دوڑ لگادی ہے اور ہر موسمی سیاحتی مقام پر گاڑیوں اور لوگوں کا رش لگ گیا ہے ابھی دیگر شعبے کھولنے کے بعد نجی سکولز مالکان بھی بضد ہیں کہ وہ15اگست سے سکول کھولیںگے شادی ہالز اور مارکیٹ والے بھی صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کا کہہ رہے ہیں لیکن جس طرح نئے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے خطرہ ہے کہ آنے والے دو ہفتے پریشانی کا باعث بن جائینگے گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے لاہور میں ایک بڑے منصوبے کے افتتاح کی تقریب میں شرکت کی تو وہاں موجود خاص شرکاءجو عوام نہیں تھے سب فیس ماسک کے بغیر تھے اس پر وزیراعظم کو کہنا پڑا کہ ماسک پہن لیں ابھی خطرہ ٹلا نہیں ہے ۔

اگر پڑھے لکھے اور حکومتی و انتظامی زعماءکا بے احتیاطی کا یہ عالم ہے تو عوام سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے دو ماہ پہلے وزیراعظم نے سمارٹ لاک ڈاﺅن کا اعلان کیا تو ساتھ یہ بھی بتایا تھا کہ پابندیاں نرم کرنا ہماری معاشی مجبوری ہے لیکن اب عید قربان کے موقع پر ایسا نہیں بتایاگیا بلکہ بڑے تفاخر کے ساتھ اعلان کیا گیا کہ چین کے بعد پاکستان ہی ہے دوسرا ملک ہے جس نے کامیاب حکمت عملی سے کورونا پر قابو پالیا ہے ہر معاملے میں قبل از وقت کامیابی کا اعلان کرکے ہو سکتا ہے حکومت کو وقتی واہ واہ مل جاتی ہو لیکن چند دن بعد نتائج مختلف ہونے سے سبکی بھی زیادہ ہوتی ہے گزشتہ سال سمندری حدود میں تیل کی تلاش اور کیکڑا1کنویں سے وسیع پیمانے پر تیل نکل آنے کا اعلان بھی ایسا ہی تھا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ کوشش ناکام ہوگئی اب کورونا کے حوالے سے بہت مشکل صورتحال ہے اس میں پردہ پوشی ہوہی نہیں سکتی اگرچہ ہمارے عوام کی قوت مدافعت یورپ کے مقابلے میں بہتر ہے۔

 اسلئے مریضوں کے صحت یاب ہونے کی شرح بھی زیادہ ہے لیکن اسکے باوجود حالات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اورمریضوں کے ساتھ مشکوک اور مشتبہ مریضوں کو بھی قرنطینہ میں رکھنا ضروری ہوتا ہے لیکن گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ایسے محسوس ہوتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ہسپتالوں میں قرنطینہ ہی ختم کر دیئے ہیں آئسولیشن وارڈز بھی عام آئی سی یو میں تبدیل کر دیئے گئے ہیں نئے مشیر برائے صحت ایک باصلاحیت ڈاکٹر ہیں اور پہلے بھی کورونا پر حکومت کے فوکل پرسن ہونے کی وجہ سے براہ راست معاملات دیکھ رہے تھے اب انتظامی ذمہ داری بھی ان پر ہے امید ہے کہ وہ تبدیل ہوتی صورتحال کے مطابق ہسپتالوں اور ایمرجنسی کے انتظامات کو دوبارہ فعال کرینگے اور کورونا کی نئی اٹھان کو محدود کرینگے لیکن ساتھ ہی عوام سے بھی گزارش ہے کہ خود پر اور اپنے بچوں پر رحم کریں ابھی سب اچھا نہیں ہے اور15اگست کو سکول اورشادی ہالز کھولنے کی اجازت تو بالکل نہیں دی جانی چاہئے کوئی بھی مصلحت بچوں کی جانوں پر بھاری نہیں ہوسکتی ۔