گلگت بلتستان ; نو ماسک نو ٹورارزم ، سیاحوں کو مشکلات

پاکستان میں سیاحت پر پابندی ختم: کورونا وائرس ٹیسٹ کی رپورٹ کے بغیر گلگت بلتستان میں داخلہ ممنوع

                       

گلگت بلتستان انتظامیہ کے مطابق سفر کا ارادہ رکھنے والے تمام سیاحوں کو خطے میں داخل ہونے کے لیے کورونا وائرس ٹیسٹ کی منفی رپورٹ ساتھ لانا ہو گی بصورتِ دیگر سیاحوں کو واپس بھج دیا جائے گا۔

کورونا وائرس ٹیسٹ رپورٹ کا ہمراہ ہونا آٹھ اگست کو جاری کیے گئے مروجہ قواعد و ضوابط میں شامل تھا تاہم اب تک اس حوالے سے نرمی برتی جا رہی تھی اور سیاحوں کو صرف سکریننگ کر کے داخلے کی اجازت دی جا رہی تھی۔

انتظامیہ کے مطابق سیاحت کی اجازت ملنے کے بعد سے اب تک تین ہزار چھوٹی بڑی گاڑیاں گلگت بلتستان کے علاقوں میں داخل ہو چکی ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق خطے میں اس وقت 25 ہزار سیاح موجود ہیں۔

 

گلگت بلتستان حکومت کی جانب سے یہ اعلان ایک ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب پاکستان میں سیاحت پر پابندی کے خاتمے کے بعد سے سیاحوں نے بڑی تعداد نے شمالی علاقہ جات کا رخ کیا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق گذشتہ اتوار کو خیبرپختونخواہ کے علاقے نتھیا گلی میں ہی 46 ہزار سے زیادہ گاڑیاں داخل ہوئیں۔

ادھر گھنٹوں قطاروں میں کھڑے ہونے کے بعد گلگت بلتستان میں داخل ہونے والے سیاح نالاں ہیں کہ انھیں داخلے کے لیے احتجاج کرنا پڑا۔

خاندان کے ہر فرد کی میڈیکل رپورٹ لازمی

گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق کہتے ہیں کہ حکومت سیاحت کے فروغ کے لیے پر عزم تو ہے لیکن انسانی جانوں کی حفاظت بھی ضروری ہے۔

 انھوں نے بتایا کہ ہماری معیشت سیاحت سے جڑی ہوئی ہے۔ اس لیے ہم سیاحت کے فروغ کے لیے کام کرتے ہیں اور سیاحوں کو راغب کرنے اور سہولیات فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔

’مگر اس وقت گلگت بلتستان میں صورتحال یہ ہے کہ کورونا سے 58 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ مجموعی متاثرین کی تعداد 2382 ہے۔ جس میں ہمارے اراکینِ اسمبلی، ڈاکٹرز بھی شامل ہیں۔

’اس صورتحال میں حکومت نے لازمی قرار دیا ہے کہ کوئی بھی سیاح جو پاکستان کے کسی بھی علاقے سے گلگت بلتستان کے لیے سفر کا آغاز کرتا ہے وہ اپنے ساتھ اپنی کورونا وائرس رپورٹ لازمی رکھے گا۔

انھوں نے بتایا کہ سیاح صرف اس صورت میں گلگت بلتستان کا سفر کرے جب اس کی کورونا رپورٹ منفی ہو، اگر وہ پازیٹو ہے تو وہ گلگت بلتستان کی طرف سفر نہ کرے اور اگر انھوں نے اپنی میڈیکل رپورٹ حاصل نہیں کی تو وہ پھر بھی سفر نہ کریں۔

’وضاحت کرتا چلوں کہ ہر ایک سیاح کے لیے یہ رپورٹ پیش کرنا لازم ہو گا۔ کچھ واقعات میں ایسا بھی ہوا ہے کہ خاندان کے ایک فرد یا کسی گاڑی میں سفر کرنے والوں میں سے ایک فرد کے پاس رپورٹ تھی باقی افراد کے پاس موجود نہیں تھی۔

’جس کے پاس رپورٹ نہیں ہو گی وہ گلگت بلتستان کی حدود سے آگے نہیں بڑھ سکے گا۔

 

فیض اللہ فراق کا کہنا تھا کہ گلگت بلستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کی حدود سے دو راستوں ضلع دیامیر کی حدود شاہراہ قراقرم ملحقہ ضلع کوہستان اور پھر متبادل راستہ بابو سر ٹاپ ملحقہ ضلع مانسہرہ میں اپنے کیمپ قائم کررکھے ہیں۔

’یہاں پر ہماری پولیس، انتظامیہ اور طبی عملہ موجود ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کیمپوں میں موجود عملے کو سختی سے ہدایت کردی گئی ہے کہ ہر سیاح کی رپورٹ چیک کی جائے۔ رپورٹ موجود نہ ہونے والے سیاح کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

فیض اللہ فراق کا کہنا تھا کہ اس سے قبل ہمارے کیمپوں میں پہچنے والے سیاحوں نے بتایا کہ ان کے پاس یہ معلومات نہیں تھیں کہ میڈیکل رپورٹ لازمی ہے۔ جس وجہ سے ان سیاحوں کو سکرینگ کرکے جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔

سیاحوں کی مشکلات

سیاحت پر پابندی کے خاتمے کے بعد جمیل ا0حسن اسلام آباد سے اپنے خاندان کے ہمراہ دو گاڑیوں پر گلگت بلتستان کی سیاحت کے لیے نکلے تھے۔ ان کی پہلی منزل مری اور گلیات کا علاقہ تھا جس کے بعد وہ گلگت بلتستان کے علاقے ہنزہ پہنچے۔

جمیل احسن بتاتے ہیں کہ ہم نے ناران سے 11 اگست کی دوپہر کو بابو سر ٹاپ کے راستے سے گلگت بلتستان کی حدود میں داخلے کا پروگرام بنایا تھا۔ جس میں ہم لوگوں کا خیال تھا کہ رات گلگت میں گزار کر ہنزہ جائیں گے۔

’سب کچھ ہمارے منصوبے بندی کے مطابق چل رہا تھا۔ مگر اس وقت انتہائی پریشانی ہوئی جب بابو سر ٹاپ کے راستے سے گلگت بلتستان کی حدود ضلع دیامیر میں داخل ہوئے تو ہماری گاڑی کو روک لیا گیا تھا۔

’جس میں، میری دو کم عمر بیٹیاں اور بہن موجود تھی جبکہ میری بیگم، بڑا بیٹا اور چھوٹا بیٹا اورقریبی عزیز ہم سے پہلے بابو سر ٹاپ کو کراس کرچکے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ضلع دیامیر کی حدود میں ہم سے کورونا ٹیسٹ کی رپورٹ طلب کی گئی تھی جو کہ ہمارے پاس موجود نہیں تھی جب کہ سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ ہماری دوسری گاڑی وہ کیمپ کراس کرچکی تھی اور موبائل فون کام نہیں کررہے تھے۔ ہمیں ان کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔

جمیل احسن کا کہنا تھا کہ ہمیں وہاں پر تقریبا تین تین گھنٹے تک روکا گیا۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ چکی تھیں۔ جن میں عورتیں، بچے اور بوڑھے بھی شامل تھے کسی کے پاس بھی کورونا ٹیسٹ کی رپورٹ موجود نہیں تھی۔

’اس دوران جب ہمارا اپنی دوسری گاڑی سے رابطہ نہیں ہوا تو وہ بھی واپس آچکے تھے۔ اس دوران سیاحوں کی تعداد بڑھ چکی تھی جس پر انھوں نے وہاں پر احتجاج کیا تو ٹمپریچر چیک کرکے جانے کی اجازت دی گئی اس دوران بھی بہت زیادہ وقت ضائع ہوا تھا۔‘

ایک اور ایسے سیاح احتشام جدون اپنے خاندان کے ہمراہ 11 اگست کو ایبٹ آباد سے گلگت بلتستان کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بابو سر ٹاپ کا راستہ چنا تھا کہ رات گلگت میں گزار سکیں اور اس کے بعد اپنی سیاحت کا آّغاز کرسکیں۔

مگر جب دیامر کی حدود میں پہنچے تو وہاں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ جس پر معلومات کیں تو پتا چلا کہ یہ سیاحوں سے میڈیکل رپورٹ طلب کررہے ہیں جو کہ شاید کسی کے پاس نہیں تھی جس وجہ سے وہ کسی کو نہیں جانے دے رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے سوچا کہ ہم واپس ناران جاتے ہیں مگر ہمارے پیچھے گاڑیاں کھڑی ہونے کی وجہ سے روڈ بند ہو چکا تھا۔ جس وجہ سے واپس ہونا بھی ممکن نہیں رہا تھا۔

’ہم لوگ دیگر سیاحوں کے ہمراہ تقریبا دو گھنٹے تک کھڑے رہے جس کے بعد سیاحوں نے احتجاج شروع کیا تو انھوں نے سکرینگ کر کے سیاحوں کو اجازت دی۔

 

نو ماسک نو ٹورارزم

    

فیض اللہ فراق کا کہنا تھا ہم نے نو ماسک نو ٹورارزم کا سلوگن بھی متعارف کروا دیا ہے۔ سیاحوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ ماسک استعمال کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ماسکس کی بڑی تعداد کیمپس پر فراہم کی جا چکی ہے۔ اگر سیاح کے پاس میڈیکل رپورٹ ہے اور ماسک نہیں تو وہ یہ ماسک کیمپ سے حاصل کرسکتا ہے۔ تفریحی مقامات، ہوٹلوں میں بھی ماسک استعمال کرنا لازمی ہو گا۔

فیض اللہ فراق کا کہنا تھا کہ ہوٹلوں، ریستوران والوں کو بھی بتا دیا گیا ہے کہ وہ بغیر ماسک اور میڈیکل رپورٹ کے کسی بھی سیاح کو سہولت فراہم نہ کریں۔

’رہائش اور کھانے پینے کی جگہ کو 50 فیصد کم استعمال کریں۔ اگر کوئی ان احکامات کی خلاف ورزی کرے گا تو اس پر جرمانے کیے جائیں گے۔‘

فیض اللہ فراق کا کہنا تھا کہ سیاحوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے رہائش میں بھی مسائل کا سامنا ہے۔ اس لیے سیاح اپنے بکنگ بھی اپنے مقام سے چلنے سے پہلے کروا لیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم سیاحوں کو تمام سہولتیں فراہم کرنے کو تیار ہیں، مگر کورونا کے اس دور میں محفوظ سیاحت کے لیے جاری کردہ ایس او پی پر مکمل عمل در آمد کرنا سیاحوں اور پھر اس صنعت سے جڑے لوگوں کی ذمہ داری ہے۔