کملا ہیرس: جموں کشمیر کے معاملے پر مودی حکومت پر تنقید کرنے والی امریکہ کی نائب صدارتی امیدوار کیا امریکی پالیسی میں بدلاؤ لا پائیں گی؟

 

                   

جہاں کچھ سیاسی پنڈتوں نے امریکی انتخابات میں ڈیموکریٹ پارٹی کی نائب صدارتی امیدوار کملا ہیرس کی نامزدگی پر کسی حیرانی کا اظہار نہیں کیا وہیں کئی ایسے لوگ ہیں جو اسے امریکی تاریخ کا اہم موڑ قرار دے رہے ہیں۔

دوسری جانب مِس ہیرس کی مخالف جماعت ریپبلیکن نے اُن پر ذاتی نوعیت کے حملے کرنا شروع کر دیے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انھیں ’جعلی، گھٹیا اور بہت زیادہ لبرل‘ کہا ہے۔

کئی دوسرے لوگوں نے انھیں ایسا ’چالاک سیاستدان‘ بھی کہا جو اپنے مفادات کو زیادہ عزیز رکھتا ہے مگر کسی بھی مقبول نظریے کو اپنے سیاسی مفاد میں استعمال کرنا جانتا ہے۔

ایک امریکی تجزیہ کار نے کہا کہ کملا ہیرس کی نامزدگی کی خبر نے کورونا وائرس کی خبروں کو دبا دیا ہے تو بعض لوگ کہہ رہے ہیں امریکی سیاست میں ایک اور ’براک اوباما‘ انتخابی میدان میں اترا ہے۔

جبکہ انڈیا کے شہر چنائی میں رہنے والے کملا کے ماموں نے کہا ہے کہ وہ (کملا) ایک ’مرد براک اوباما‘ ہیں۔

انھیں براک اوبامہ قرار دیے جانے کی شاید بڑی وجہ اس عہدے کے لیے ان کا پہلا سیاہ فام امیدوار ہونا ہے۔

مودی کی حمایت پھر تنقید

اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ آنے سے پہلے کملا ہیرس کی والدہ شیاملا گوپالن ساؤتھ انڈیا کے شہر چنائی رہتی تھیں۔ شاید اسی وجہ سے کملا نے امریکہ اور انڈیا کے درمیان مضبوط رشتوں کو ’اٹوٹ‘ قرار دیا جس کے بعد وہ انڈین نژاد امریکی کمیونٹی میں بہت مقبول بھی ہوئیں۔

تاہم جب بی جے پی کی حکومت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کیا تو انھوں نے انڈین حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔

کشمیر میں پابندیاں اور کملا ہیرس کا مؤقف

گذشتہ برس اگست کے اقدامات کے بعد جب انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں سخت پابندیاں عائد ہوئی تھیں تو کملا ہیرس نے کہا تھا کہ ’ہمیں کشمیریوں کو یہ یاد دلانا ہے کہ وہ اپنی اس جدوجہد میں تنہا نہیں ہیں۔‘

’ہم حالات کا مسلسل جائزہ لے رہے ہیں اور اگر حالات کا تقاضہ ہوا تو ہمیں مداخلت کرنے کی ضرورت ہو گی۔‘

سینیٹر کملا ہیرس نے مودی سرکار پر تنقید کا سلسلہ جاری رکھا، یہاں تک کے ایک موقع پر انھوں نے انڈیا کے وزیرِ خارجہ جے شنکر پر بھی براہ راست سخت تنقید کی۔

امریکی کانگریس میں کشمیر پر قرارداد

امریکی کانگریس کی ایک اور انڈین نژاد رکن پرامیلا جے پال نے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں امریکی ایوانِ نمائندگان میں ایک قراداد پیش کی تھی۔

انڈیا کے وزیرِ خارجہ جے شنکر نے امریکی کانگریس کی عمارت میں خارجہ امور کی کمیٹی کے کشمیر پر ہونے والے اس اجلاس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا تھا جس میں جے پال موجود ہوں گی۔

کملا ہیرس نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’یہ غلط ہے کہ کوئی غیر ملکی حکومت کانگریس کو یہ بتائے کہ کیپیٹل ہِل کے ایک اجلاس میں کون سے ارکان شریک ہو سکتے ہیں۔‘

امریکہ میں کانگریس کی عمارت کو کیپیٹل ہِل کہا جاتا ہے۔

اگرچہ کانگریس کے کئی ارکان نے انڈین وزیرِ خارجہ پر تنقید کی تھی لیکن کملا ہیرس کے بیان کو انڈین نژاد ہونے کی وجہ سے میڈیا میں زیادہ اہمیت ملی۔

کشمیر پر امریکہ میں ایک پالیسی ہے

درحقیت کشمیر کے بارے میں یہ موقف صرف کملا ہیرس کا نہیں ہے بلکہ کئی اور سینیٹروں اور کانگریس کے ارکان بھی ایسا ہی موقف رکھتے ہیں۔

کشمیر کے حالات کی وجہ سے جب کملا نے تنقید کی تھی تو اُن سے پہلے سینیٹر الِزیبیتھ وارن اور سینیٹر برنی سینڈرز بھی اس معاملے پر تشویش کا اظہار کر چکے تھے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے بھی ایسا ہی موقف اختیار کیا تھا۔

کملا ہیرس انڈیا کے شہریت کے متنازع قانون میں ترمیم پر بھی تنقید کرتی رہی ہیں۔

اس قانون کی وجہ سے انڈیا میں مسلمانوں سے امتیازی سلوک کیے جانے کے امکانات کے الزامات لگ رہے ہیں۔ یورپی یونین نے بھی اس قانون پر تنقید کی ہے۔

اس کے علاوہ سوائے راجہ کرشنا مورتی کے انڈین نژاد امریکی کانگریس کے تمام اراکین نے ٹیکساس میں ہونے والے ’ہاؤڈی مودی‘ تقریبات کا بائیکاٹ کیا تھا۔

گذشتہ برس اکتوبر میں انڈین نژاد امریکیوں کی ایک بڑی تعداد نے ٹیکساس میں وزیراعظم مودی کے اعزاز میں ایک بہت بڑی تقریب ’ہاؤڈی مودی‘ کا انعقاد کیا تھا جس میں صدر ٹرمپ نے بھی شرکت کی تھی۔

ان حالات میں انڈیا کے بعض تجزیہ نگار اب یہ بات کر رہے ہیں کہ اگر نومبر کے صدارتی انتخابات میں جو بائیڈن اور کملا ہیرس جیت گئے تو ایک بہت ہی دلچسپ صورتِ حال پیدا ہو گی کیونکہ امریکہ کشمیر پر اپنے موقف کی وجہ سے انڈیا سے اپنے تعلقات کیسے خراب کر سکے گا جسے وہ چین کے ساتھ مسابقت میں اپنا اتحادی سمجھتا ہے؟

’کشمیریوں کو زبانی جمع خرچ والے بیانات کی ضرورت نہیں‘

تاہم ایک کشمیری قانون دان اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں ویڈن فلڈ ہوفمین سکالر، مرزا صائب بیگ کہتے ہیں کہ

’کملا ہیرس نے کشمیر میں انسانی حقوق کے بارے میں یہ کہہ کر بات کی ہے کہ کشمیری تنہا نہیں ہیں۔ تاہم کشمیر کے مسئلے کو ایک انسانی حقوق کا معاملہ کہہ کر بیان کرنا مسئلے کی اصل حقیقت کو تسلیم نہ کرنے کے مترادف ہے۔‘

مرزا صائب بیگ کہتے ہیں کہ ’کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ایک بڑے سیاسی تنازع کی وجہ سے ہو رہی ہیں جس کے بارے میں کملا ہیرس کا کوئی موقف نہیں ہے۔‘

’ان کا (نائب صدر کے امیدوار کے طور پر) شامل کیا جانا امریکی صدارتی انتخابات میں ایک تنوع تو ظاہر کرتا ہے لیکن اس سے کشمیریوں کے لیے کوئی خاص بدلاؤ نہیں آئے گا جب تک کہ وہ کشمیر کے بارے میں غیر مبہم موقف نہیں اپنا لیتی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’کشمیریوں کو زبانی جمع خرچ والے بیانات کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔‘

ہم ہر روز ان حالت سے گزرتے ہیں۔ ہمیں ایسے عالمی رہنماؤں کی ضرورت ہے جو سچ کہہ سکیں۔ ہر شخص کہہ سکتا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کی جائیں، لیکن ہر شخص کشمیر کے سیاسی تصفیے کے لیے کھڑا نہیں ہوتا ہے۔ عالمی رہنما کو جرات والا ہونا چاہیے۔‘

پاکستان کی ایک تجزیہ نگار یاسمین آفتاب علی کہتی ہیں کہ کملا ہیرس نے کشمیر کے بارے میں صرف وہی کچھ کہا ہے جو امریکہ کے دیگر ڈیموکریٹ رہنما کہتے رہے ہیں۔

 

’اس لیے ان کے کسی بھی بظاہر کشمیر کے حامی بیان سے یہ مراد نہیں لی جا سکتی ہے کہ ان کی وجہ سے امریکہ کی کشمیر پالیسی میں تبدیلی آئے گی۔ ایک انڈین نژاد امریکی بہرحال انڈیا کے معاملے میں اپنے ثقافتی وراثتی تعلق کو کیسے نظر انداز کر سکتا ہے۔‘

ہیرس ’ترقی پسند نہیں ہیں'

کیٹو انسٹیٹیوٹ کی ریسرچ فیلو سحر خان عالمی امور کے علاوہ امریکی سیاست پر بھی گہری نظر رکھتی ہیں۔

کشمیر اور فلسطین کے بارے میں کملا ہیرس کے بظاہر مختلف موقف پر بات کرتے ہوئے سحر خان کہتی ہیں کہ ’اِن کی باتوں میں نئی چیز نہیں ہے۔‘

’وہ وہی بات کرتی ہیں جو کہ ڈیموکریٹ پارٹی کی لائن ہے۔ فلسطین کے حوالے سے وہ اسرائیلی پالیسیوں پر تنقید کرتی ہیں، لیکن اسرائیل پر پابندیاں عائد نہیں کریں گی، اسی طرح کشمیر پر بھی ان کا یہی موقف ہو گا۔‘

’سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگرچہ وہ دعویٰ تو کرتی ہیں لیکن وہ حقیقت میں ترقی پسند نہیں ہیں۔ میرے خیال میں جو بائیڈن کو ایک میانہ روی کی پالیسی اپنانا ہو گی، اس میں (کملا) ہیرس ان کی کافی مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔‘

اس سوال پر کہ کملا ہیرس کی شمولیت سے جو بائیڈن کی انتخابی مہم کو کیا فائدہ ہو گا، سحر خان کہتی ہیں کہ ’تاریخی طور پر خاتون امیدواروں کو زیادہ کامیابی نہیں ملی ہے۔‘

’لیکن میرے خیال میں جو بائیڈن کو موجودہ سیاسی ماحول کی وجہ سے اپنے ساتھ کسی خاتون کو اپنا سیاسی ساتھی رکھنا بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔ خوش قسمتی سے اس کے پاس کئی ایک آپشنز تھے۔‘

تاہم سحر خان نے اس بات کا بھی انتباہ دیا کہ ’ٹرمپ کے حامی حلقے اُن کا ہر حال میں ساتھ دیں گے چاہے کچھ بھی ہو۔ قدامت پسند حلقے عموماً خاتون یا سیاہ فام امیدوار کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ لیکن ہیرس اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے ایک اچھی امیدوار ہیں۔‘

انھوں نے کملا ہیرس کے بارے میں یہ بھی بتایا کہ اگرچہ ’ہیرس خود اس بارے میں کچھ کہنے سے گریز کرتی ہیں لیکن کیلیفورنیا میں جب وہ سرکاری وکیل تھیں تو یہ بات بہت زیادہ دیکھی گئی تھی کہ وہ پولیس کی حامی رہی ہیں۔ اس لیے اگر پولیس میں اصلاحات کی گئیں تو وہ کوئی خاص نہیں ہوں گی۔‘

پاکستان سے تعلقات کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ’فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ وہ پاکستان یا انڈیا کس کی زیادہ حمایت کریں گی۔‘

’بائیڈن بھی افغانستان کی جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں، لیکن میرے علم میں نہیں ہے کہ وہ ایک ٹیم کے طور پر پاکستان سے بات چیت کی بحالی کا آغاز کر سکتے ہیں یا نہیں۔‘

کوئی بدلاؤ نہیں آئے گا؟

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اور امریکی تحقیقی ادارے ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے سکالر حسین حقانی کے مطابق ایسی کئی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ امریکی نظام میں نائب صدارت کا امیدوار امریکہ کے صدارتی انتخابات پر اثر انداز نہیں ہوتا ہے۔

’سینیٹر ہیرس جو بائیڈن کی انتخابی مہم میں ایک جوش و ولولہ تو پیدا کر سکتی ہیں اور کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے کی وجہ سے شاید وہ انتخابی چندے میں اضافے میں کوئی کردار ادا کریں۔‘

تاہم بقول حسین حقانی ’ان کا جو بائیڈن کی طرح ڈیموکریٹس کے اعتدال پسند دھڑے سے تعلق ہے، اور کئی ایک خارجہ پالیسی کے امور پر یہ میانہ روی والی پالیسی رکھتے ہیں۔‘

امریکہ کے پاکستان اور انڈیا سے تعلقات کے حوالے سے حسین حقانی کا کہنا ہے کہ ’یہ امریکی سیاست میں اس وقت غیر اہم مسئلے ہیں اور مجھے اس بات پر شک ہے کہ انڈین نژاد ہونے کی وجہ سے سینیٹر ہیرس اس کو بدل سکیں گی۔

حسین حقانی کہتے ہیں کہ ’اس وقت امریکیوں کی بڑی تعداد انڈیا کو امریکہ اور چین کے درمیان مسابقت میں اپنا اتحادی قرار دیتے ہیں اور نائب صدر ہیرس اس لحاظ سے مختلف نہیں ہوں گی۔