مولانا فضل الرحمن کی سیاست سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر ان کے ایک زیرک اور معاملہ فہم سیاستدان ہونے سے کسی کو اختلاف نہیں وہ اپوزیشن کو متحد کرنے کیلئے پہلے دن سے ہی متحرک ہیں اور دونوں سابقہ حکمران پارٹیوں کی قیادت کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ”سوگنڈے پیاز“ یا” سوجوتے کھانے“ میں سے ایک چیز لو مگر اپوزیشن کے بڑے رہنما ان کے کہنے میں نہیں آئے پہلے سوپیاز کھاتے رہے اوراب سو جوتے کھانے کی باری ہے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر‘ میاں شہبازشریف مارچ میں لندن سے واپس آئے تھے اور چار ماہ وہ سخت قرنطینہ میں رہے اب دو ہفتے سے متحرک ہیں اور پیپلز پارٹی کی قیادت کبھی صوبائی حقوق اور کبھی قیادت پر مقدمات کے معاملات پر توازن قائم رکھنے میں مصروف ہے اپنی اپنی سیاست کو بچانے کیلئے ڈھیلی ماٹھی بیان بازی بھی ہوتی رہتی ہے لیکن جب بھی حکومت کو ضرورت پڑی انہوں نے تعاون کیا حال ہی میں ایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری کرنے کیلئے قانون سازی میں اپوزیشن نے کوشش کی کہ سودا بازی کرکے نیب کو بے اختیار کرالیا جائے لیکن حکومت نے یہ مطالبہ مسترد کردیا اسکے باوجود مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے حکومت سے تعاون کرکے مطلوبہ ترامیم منظور کروادیں جبکہ مولانا فضل الرحمن کی پارٹی نے مخالفت کی اس پر مولانا نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پر اعتماد کرنے اور مزید امید رکھنے کی بجائے اپنی انفرادی حیثیت میں حقیقی اپوزیشن کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔
مولانا عام طورپر اپوزیشن جماعتوں کے حوالے سے کوئی کمزور بات نہیں کرتے لیکن اب وہ کھل کر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں اس پس منظر میں گزشتہ روز نیب لاہور کی طرف سے مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کی طلبی کو سیاسی طاقت کا اظہار بنانے کا فیصلہ کیا گیا اور پارٹی کارکنوں کو طلب کرکے جلوس کے ساتھ پیشی کے موقع پر ہنگامی آرائی ہوگئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ مریم نواز نے کامیابی سے اپنی سیاسی انٹری ڈال دی ہے اب ان کی دیکھا دیکھی پیپلز پارٹی نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ سابق صدر آصف زرداری کی اسلام آباد میں پیشی کے موقع پر17اگست کو کارکنوںکو بھی لائے گی لیکن بادل النظر میں اس طرح کے فیصلوں اور ہنگامہ آرائی سے رائے عامہ تبدیل کرنا مشکل ہے اور کارکنوں کی حقیقت بھی سب کو معلوم ہے البتہ اس نئے طرز عمل سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ نیب کی حرکت پذیری کے جواب میں اپوزیشن بھی اپنے سیاسی ہتھکنڈے آزمانے کا ارادہ رکھتی ہے جہاں تک اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کا تعلق ہے تو وہ کینسر کے مریض اور کورونا سے گزرنے کے باوجود پوری طرح چاک وچوبند ہیں اور تیزی سے حرکت پذیر ہیں انہوں نے آزادی کشمیر کیلئے آزاد کشمیر جانے کا فیصلہ اور قانون ساز اسمبلی سے خطاب بھی کیا پھر مختلف ممالک کے سفارتخانوں میں جا کر نیب کے بارے میں حقائق سے آگاہ کررہے ہیں ۔
ایسامحسوس ہوتا ہے کہ شہبازشریف کو احساس ہوگیا ہے کہ ان کی گرفتاری کا وقت قریب ہے اسی لئے وہ زیادہ سے زیادہ ملاقاتیں کر رہے ہیں اور ساتھ ہی لاہور میں عوامی مظاہرے کاتجربہ بھی کرلیا ہے اب وہ زیادہ اطمینان سے اپنے مقدمات کا سامنا کرسکتے ہیں لیکن شاید ابھی ان میں مولانا فضل الرحمن کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں ہے اور جب تک مشکل قانون سازی میں حکومت کی غیر مشروط حمایت کی قابل اطمینان وضاحت نہیں کرتے شاید مولانا فضل الرحمن مزید اعتماد کرنے پر تیار نہ ہوںویسے تو حکومت ابھی تک کسی قسم کے خطرے سے دوچار نہیں مگر پنجاب میں اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں سردمہری کوئی مشکل پیدا کر سکتی ہے اس کا دارومدار مسلم لیگ ن پر ہے کہ وہ مسلم لیگ ق کے پیچھے چلنے پر تیار ہوتی ہے یا نہیں بہرحال سیاست میں کوئی فیصلہ حرف آخر نہیں ہوتا اورنہ ہی کوئی دوست یا دشمن مستقل ہوتا ہے اورپاکستانی سیاست میں تو کوئی اصول بھی نہیں رہ گیا بس مفادات کا نام ہی سیاست ہے اس لئے آنے والے حالات کی پیشگوئی مشکل ہے۔