قوموں کی زندگی میں کچھ دن ایسے آتے ہیں کہ جو صدیوں تک یادگار بن جاتے ہیں۔ ہندوستان صدیوں سے جنگجوﺅں کی آماجگاہ رہا۔ شاید تاریخ کے اولین دور سے ہی اس ملک کو سونے کی چڑیا سمجھا جانے لگا تھا ۔ ہرشکاری اس کو شکار کرنے کےلئے دوڑا آتا تھا‘ تاریخ میں یہ بھی درج ہے کہ اس ملک پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک کبھی ایک شخص کی حکومت نہیں رہی اوریہ ملک سدا سے راجواڑوں میں تقسیم رہا ´۔ جہاں جس گروہ کو طاقت ملی اس نے حکومت قائم کر لی چاہے وہ چند سو مربع میل ہی کی کیو ں نہ ہو مگر یہی سمجھتا رہا کہ وہ سارے ہندوستان کا مالک ہے‘ ہندوستان کی زرخیز زمین نے وسط ایشیا کی قوموں کو ہمیشہ اپنی طرف کھینچااور جو بھی راجو اڑے راستے میں آ ئے اُن کو تہس نہس کرتے ہوئے دلی تک پہنچ گئے اور دلی کے تخت پر بیٹھنا پورے ہندوستان پر حکومت کرنا ٹھہراتھا گوہندوستان کے دیگر حصوں میںمختلف راجوں مہاراجوں کی حکومتیں قائم رہیں‘یہ راجے مہاراجے یا تو تخت دلی کے باجگزار تھے یا اپنی ڈیڑ ھ اینٹ کی مسجد بنا رکھی تھی جو کسی وقت بھی دلی سرکار یا کوئی دوسرا راجہ اس کو اپنی مملکت میں شامل کر لیتا تھا‘صرف مغل بادشاہ اکبر نے یہاں ایک بڑی سلطنت قائم کی جو اس کے جانشینوںنے اپنی نالائقی کے سب کھو دی اور ہزاروں میل دور سے آئے ہوئے انگریزتاجروں نے مغلوں کو شکست دے کر پورے ہندوستان کو اپنے زیر نگیں کر لیا انگریزوں کی یہ حکومت کچھ اُن کی چالاکیوں اور کچھ ہمارے اپنے لوگوں کی غداری کی وجہ سے سارے ہندوستان پر پھیل گئی اس میں کچھ راجے مہاراجے تھے مگر وہ انگریز کے باجگزار تھے۔ دریں اثنا دنیا کو دو بڑی جنگوں کا سامنا کرنا پڑا جس میں ایک طرف جرمنی اور اس کے اتحادی تھے اور دوسری جانب انگریز اور اُن کے حامی تھے۔
گو یہ جنگیں انگریز اتحادیوں نے جیتیں مگر ان جنگوںنے انگریزوں کو اتنا کمزور کر دیا کہ وہ اپنا قبضہ مختلف ملکوں پر قائم نہ رکھ سکے اور جہاں جہاں آزدی کی تحریکیں جاری تھیں وہاں وہاں انہوںنے اپناقبضہ اٹھا لیا ۔ ہندوستان بھی ان ہی ملکوں میں شامل تھا کہ جہاں کی عوام نے انگریزوں سے آزادی کی جد و جہد کی ‘انگریزوںکو یہ ملک چھوڑنا پڑا مگر اُن کے سا منے اس ملک کو آزاد کرنے سے قبل ایک سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ اس ملک میں تو دو قومیں آباد تھیں ہندو اور مسلمان۔ انگریز چاہتا تھا کہ یہ ملک ہندﺅں کے حوالے کر کے یہاں سے نکل جائے مگر مسلمان لیڈروں نے اس بات کو نہ مانا اور ایک علیٰحدہ مملکت کا تقاضا کر دیا کہ جس میں مسلمان اکثریت واے علاقے شامل ہوں۔ ایک عرصے کی جد جہد کے بعد مسلمانوں کی ایک علیحدہ مملکت کا وجود دنیا کے نقشے میں شامل ہو گیا‘ سات دہائیوں کے بعد اب وطن عزیز دنیا کی پہلی مسلمان ایٹمی طاقت ہے تاہم ساتھ ہی مختلف قسم کے مسائل بھی درپیش ہیں اور اس ملک کی حفاظت اور سالمیت کی ایک ہی صورت ہمیں نظر آتی ہے۔
وہ یہ کہ اس ملک کو اُسی اساس پر لانا ہو گا کہ جو اس ملک کو حاصل کر نے کی وجہ بنی تھی‘ایسے میں نئی نسل پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک کواس اساس پر قائم رکھے جس پر یہ وجود میں آیا اور ہر کوئی یہ سوچے کہ ہم نے اس ملک کو کیا دیا ہے اور اس کی سالمیت اور خوشحالی میں اپنا کتنا حصہ ڈالا ہے ۔ آج کے دن پوری قوم کو یہ عہد کرنا ہوگا کہ ملکی سالمیت پرآنچ آنے نہیں دی جائیگی‘ دعا ہے کہ یہ ملک سدا قائم رہے او ر اپنی اساس پر قائم رہے۔تاہم اس میں ہر فرد کا کردار اہم ہے کیونکہ قوم کا ہرفرد اگر یکسو ہوکر سوچے اور اپنا نصب العین واضح رکھے تو پھر کوئی مشکل ایسی نہیں جس پر قابو نہ پایا جاسکے۔ اس وقت وطن عزیز کو چیلنجز بھی درپیش ہیں تاہم یہ بھی ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ اس قوم نے مشکل حالات اور چیلنجز میں اپنی صلاحیتوں کازیادہ موثر استعمال کیا ہے اور جس کی مثال اس کا ایسے حالات میں ایٹمی طاقت بننا ہے جب امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی طرف سے معاشی پابندیوں کا سامنا ہے ۔