سعودیہ پاک تعلقات کی خاص نوعیت 

 پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی نوعیت کسی وقتی سیاسی یا سفارتی مفاد پر مبنی نہیں بلکہ یہ عقیدت و احترام کے دائمی رشتوں پر استوار ہیں اگرچہ بعض عالمی معاملات پر دونوں ممالک کی قیادت کے درمیان سوچ کا فرق موجود ہے بالخصوص مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے نئے جارحانہ قبضے اور کشمیریوں پر قید و بند کی صعوبتوں کے ایک سال کے دوران او آئی سی‘(اسلامی کانفرنس تنظیم) کی طرف سے پاکستان کی توقع کے مطابق ردعمل سامنے نہ آنے اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بقول تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس نہ بلانے پر پاکستان کو شکایت پیدا ہوئی ہے چونکہ سعودی عرب او آئی سی کا موجودہ صدر بھی ہے اسلئے او آئی سی کی بے عملی کا الزام بھی سعودی قیادت پر آتا ہے کہا جاتا ہے

 

کہ وزیر خارجہ کے اس بیان پر سعودی عرب نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے یہ ایک فطری ردعمل ہے کیونکہ جہاں دوستی اور اعتماد کا رشتہ ہو وہاں اتنی بات بھی ناراضگی کا باعث بن جاتی ہے سعودی عرب ایک امیر اسلامی ملک ہے یہ تاریخی حقیقت ہے کہ سعودی حکمران خاندان نے ہمیشہ غریب اسلامی ممالک کیلئے اپنی دولت کو فراخدلی سے نچھاور کیا پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جس کو ہر مشکل وقت میں سعودی عرب نے مالی مدد دی اور اسی کے ساتھ یہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان نے سعودی عرب کی تعمیر و ترقی اور دفاع کیلئے اپنے ہنرمند اور تربیت یافتہ افرادی قوت کو سعودی عرب بھیجا اگرچہ تیل کی دولت کے حصول کے بعد سعودیہ نے تعمیر و ترقی کا جو سفر شروع کیا اس کیلئے دنیابھر سے لیبر منگوائی گئی مگر کچھ حساس مقامات کی تعمیر اور دفاع کیلئے صرف پاکستانی شہریوں کو ہی منتخب کیا گیا کیونکہ پاکستانیوں کیلئے سعودی عرب صرف ایک امیر ملک ہی نہیں بلکہ عقیدتوں کی سرزمین ہے

 

اور ہر پاکستانی اس پاک دھرتی کے دفاع کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے اس وقت10لاکھ سے زیادہ پاکستانی سعودی عرب میں ہیں جن میں بڑی تعداد دفاع کیلئے خدمات سرانجام دیتی ہے اگرخدانخواستہ کسی وجہ سے یہ سب پاکستانی سعودی عرب سے واپس آجاتے ہیں تو پاکستان کیلئے دھچکہ ہوگا لیکن سعودی عرب کو بھی اس انخلاءسے ناقابل تلافی نقصان ہوگا اگر سعودی عرب کے پاس دولت ہے تو پاکستان کے پاس اس دولت اور مملکت کے دفاع کی صلاحیت وقوت ہے اس لئے دونوں ممالک کو کوئی سخت اور بڑا فیصلہ کرتے وقت تمام پہلو زیر غور لانے ہونگے جہاں تک اسلامی کانفرنس تنظیم کا تعلق ہے تو اس کو ایک موثر عالمی قوت بنانے میں پاکستان کی کوشش اور خواہش ہمیشہ شامل رہی1974 میں او آئی سی کا لاہور میں ہونیوالا سربراہ اجلاس شاید اس تنظیم کا عروج تھا اس وقت سعودی عرب کے شاہ فیصل‘ لیبیا کے معمرقذافی‘ مصر کے انورسادات‘ الجزائر کے حوار ی بومدین‘ شام کے حافظ الاسد‘ انڈونیشیا کے سوئیکارنو‘ یو اے ای کے شیخ زید النہیان اور پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو جیسے لیڈر موجود تھے اور اسلامی دنیا ایک طاقت تھی اس سب کاحاصل یہ ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں اور جب ایک دوسرے کے بغیر گزارا نہیں تو پھر وقتی مفادات اور انا کوپس پشت ڈال کر بھائیوں کی طرح آگے بڑھنا چاہئے۔ ایک دوسرے پر احسان جتانے کی بجائے تعاون کی مزید راہیں کھولنا چاہئے اسی میں دونوں کی بقا اور عزت ہے ۔