چودہ اگست کا یوم آزادی بڑے دھوم دھڑلے سے منایا گیا ‘رات بارہ بجے کے بعد ہماری چھاو¿نی سے آتش بازی کا آغاز ہوا جو بہت دیر تک جاری رہا ‘ اس دن کے استقبال کے لئے ہر پاکستانی اپنی اپنی بسا ط کے مطابق حصہ لیتا ہے۔ دہشت گردی کا سالوں میں بھی کم از کم استقبا ل کی حد تک تو ہم اکیس اور اکتیس توپوں کی سلامی اس دن کو دیتے ہی رہے ہیں جو اس سال بھی صبح سویرے حسب معمول دی گئی۔ اس کے بعد کے جو پروگرام تھے یعنی قائداعظم اور علامہ اقبال کے مزار وںپر گارڈز کی تبدیلی اور مختلف صوبوں کے دارالخلافوں میں پرچم کشائیاں اور اس کے بعد مختلف لیڈروں کی جانب سے اس دن کی مناسبت سے پیغامات اور بعض جگہوں پر پرچم کشائیوں کے ساتھ ساتھ وزرائے اعلیٰ کے پیغامات یہ سب کچھ اسی طرح ہوا جو ہر دفعہ ہوتا ہے اور اپنے شہیدوںکوبھی یاد کیا گیا اور ان کی قبروںپر حاضریاں بھی دی گئیں ۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہ گزشتہ روز ہمارے پشاور کے سفری منصوبے کا بھی افتتاح کیا گیا اور وزیر اعظم صاحب نے بطور خاص اس میں شرکت بھی کی او راپنی تقریر کے دوران اس منصوبے کی افادیت اور اس کے ساتھ صوبے کے سابق وزیر اعلیٰ کی تعریفیں بھی کیںکہ جنہوں نے اس منصوبے کی تجویز بھی پیش کی اور اس کی تکمیل کے لئے بھی کوشاںرہے ۔ گو ابھی منصوبہ ادھورا ہی تھا کہ اُن کو مرکز میں بلا لیا گیا مگر ان کے جانشینوں نے ہمت نہیں ہاری اور بہت کچھ سننے کے باوجود اور باربار اس کے لئے سٹے آرڈر لینے او ر نت نئی تکمیلی تاریخیں دینے کے باوجود ایک دن ایسا آ ہی گیا کہ پشاور کے باسی ایک آسان اور خوشگوار سفر کے قابل کر ہی دیئے گئے ۔ اصل میں ہم کچھ زیادہ ہی ” تاولے “ واقع ہوئے ہیں۔
ایک اتنے بڑے منصوبے پر وقت تو لگتا ہے مگر ہم چاہتے ہیں کہ ادھر حکومت ایک کام کا اجراءکرے اور دوسرے دن ہی اس کا اختتام ہو جائے حالانکہ اس طرح ہوتا نہیں ہے ‘ ایک چھوٹا سا مکان بنانے کے لئے بھی سالوں لگ جاتے ہیں جبکہ وہ ایک ہی شخص کی ملکیت ہوتا ہے اور ایک ہی کنبے نے وہاں رہنا ہوتا ہے مگر اس میں بیسیوں دفعہ مستریوں کے ہاتھوں تبدیلیاں کی جاتی ہیں اور ایک دن مالک مکان اس مستری کے آگے دست بستہ عرض کرتا ہے کہ اللہ واسطے اس کی جان چھوڑ دے ۔ جیسا بھی ٹوٹا پھوٹا مکان ہے وہ اس میں گزارہ کر لیں گے بس مستری صاحب اپنی ” تیشی کرنڈی “ کو سنبھالیں اور واپسی کا سفر اختیار کریں۔اور بی آرٹی کا منصوبہ تو بہت بڑا منصوبہ تھا اور اس میں اصل روٹ میں دسیوں بار تبدیلیاں کی گئیں اور شنید ہے کہ اب بھی اس منصوبے میں بہت سی کمیاں ہیں جن کو ساتھ ساتھ دور کر لیا جائے گا ۔ اصل مسئلہ تو بسوں کا ٹریک پر لانا تھا جو ہو گیا اور کرایہ بھی مناسب ہی ہے ۔ منصوبے بہت بنتے ہیں اور ان کی تکمیل بھی ہوتی ہے مگر ان کاگزشتہ سے مقابلہ کرنا ہمارے خیال میں بنتا نہیںہے۔
اس لئے کہ گزشتہ جو منصوبے لاہور ،اسلام آباد ، ملتان وغیرہ میںبنے ان کے لئے ماحول الگ تھا اس کی داد نہ دینا بھی تو ٹھیک نہیں ہے نا۔ سیاست اپنی جگہ مگر ایک ا چھا کام کرنے والے کو داد تو دینی ہی چاہئے۔ جیسے یہ حکومت بہت سے اچھے کام کرنے جا رہی ہے ۔کل کلاں کو اگر کوئی ان کے اچھے کارناموں میں کیڑے نکالے کو تو اچھا تو نہیں ہو گا نا۔ ہم چاہتے ہیں کہ جو بھی قوم کے لئے کام کئے گئے ہوں اور جو بھی عوام کی بھلائی کے کام ہوں ان کوتاحیات سراہنا چاہئے مگر ہم نے کچھ ایسی عادت اپنا لی ہے کہ اس پہلے جو بھی جو حکومت میں تھے وہ سارے ڈاکو تھے یا لٹیرے تھے۔ یہ روش ٹھیک نہیں ہے اگر کسی سے کچھ کوتاہی ہوئی ہے تو اس کے لئے عدالتیں ہیں اُن کو کام کرنے دیجئے ۔ خود ہی منصف نہ بنیئے ۔اگر عدالت میں یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ کسی نے کوئی برا کام کیا ہے تو اسے سزا مل جائے گی آپ کیوں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔