ملک میں مہنگائی کی بنیادی وجہ بجلی‘ گیس اور تیل کی مہنگائی ہوتی ہے جہاں تک تیل کا تعلق ہے تو یہاں کچھ مجبوری بھی ہوتی ہے کہ ہم تیل باہر سے خریدتے ہیں اور عالمی قیمتوں کے ساتھ اتارچڑھاﺅ ہوتا رہتا ہے لیکن یہاں بھی عام طورپر ہرحکومت بھاری ٹیکس لگا کر50 فیصد تک اضافی وصول کرتی ہیں اسکے برعکس گیس ہمیں قدرت نے بھاری مقدار میں عطاکی ہے اس پر صرف ترسیل کے اخراجات ہیں اور پانی کے وسیع ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بھی قدرت کا عطیہ ہے لیکن اسکے باوجود ہمیں گیس اور بجلی بھی خطے میں مہنگی ترین قیمت پردی جاتی ہے یہ بدانتظامی اور کرپشن کی طویل کہانی ہے ہم نے مفت ذرائع کو چھوڑ کر مہنگے ذرائع سے بجلی پیدا کرنے بلکہ نجی کمپنیوں سے خریدنے کے معاہدے کئے اور اس کانتیجہ ہے کہ خطے میں سب سے مہنگی بجلی ہم خرید رہے ہیں ان نجی بجلی کمپنیوں کے ساتھ ایسے ایسے معاہدے کئے گئے کہ حکومت ہر سال ان کی500 ارب روپے کی مقروض ہوتی گئی ور اب یہ گردشی قرضے 2000 ارب تک پہنچ گئے اس صورتحال میں موجودہ حکومت نے ان نجی بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے معاملات کھولے تو لوٹ مار اور کرپشن کی حیران کن کہانیاں سامنے آئیں وزارت بجلی کے حکام اور نجی کمپنیوں کی ملی بھگت سے وہ بجلی بھی خریدی گئی۔
جو پیدا بھی نہیں ہوئی اور پاور پلانٹس کی پیداواری استعداد سے بھی زیادہ پیداوار دکھائی گئی اس پر ان کمپنیوں کو ادائیگی ڈالر میں کی جاتی رہی اور ان کیلئے فرنس آئل کی درآمد بھی حکومت کرتی رہی جب ان سب گھپلوں کا آڈٹ کرانے کی بات کی گئی تو کمپنیوں نے حکومت کو ایک لحاظ سے پلی بارگین کی پیشکش کی اس کے مطابق ان کمپنیوں نے گردشی قرضہ ختم کرنے اور نئی شرائط پر معاہدے کرنے کی پیشکش کی گئی اور حکومت نے پہلی بار عقلمندی کا مظاہرہ کیا کیونکہ ان کمپنیوں کے خلاف کیس کھولے جاتے تو کچھ وصول نہیں ہونا تھا جبکہ نئے معاہدے کرنے سے کم از کم400 ارب روپے سالانہ کی بچت ہوگی بجلی سستی ہوجائے گی اور کمپنیوں کو ادائیگی ڈالر کی بجائے روپے میں ہوگی اب اندازہ لگائیں کہ جس قیمت پر یہ کمپنیاں2020 میں معاہدہ کرنے پر تیار ہیں کیا2010 سے2015 تک اس پر تیار نہ ہوتیں لیکن اصل مسئلہ حکومتوں کی کرپشن اورذاتی فائدہ کیلئے ملک کوگروی رکھنے کی روایت ہے1990 میں پہلی بار نجی کمپنیوں کو بجلی پیدا کرنے کی اجازت دی گئی تو اس وقت بھی ملکی مفاد کو نہیں دیکھا گیا پھر ہر حکومت نے نئے نئے معاہدے کئے اور صورتحال یہ ہوگئی کہ ہماری مجموعی ضرورت 1800 میگاواٹ تھی جبکہ معاہدے2200 میگاواٹ کے کئے گئے اور اسکے باوجود لوڈشیڈنگ بھی ہوتی رہی اب حکومت نے مثبت فیصلہ کیا ہے اوران ہی کمپنیوں سے نئی شرائط پر معاہدے کئے ہیں۔
جس کی بدولت امید ہے کہ بجلی سستی بھی ہوگی بھاری گردشی قرضوں سے بھی جان چھوٹ جائے گی اور مزید بچت بھی ہوگی اگر اسی طرح سابق حکمرانوں سے پلی بارگین کرکے لوٹی دولت واپس لینے کی کوشش کی جائے تو کچھ نہ کچھ وصولی ہو سکتی ہے ورنہ مقدمات سے شاید کچھ وصول نہ ہو ابھی ایل این جی کے غیر حقیقی اور ملکی مفاد کے خلاف معاہدوں پر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی پر مقدمہ چل رہا ہے لیکن وہ نیب کو ختم کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں یقینا عدالتی نظام میں کرپشن ثابت کرنا بہت مشکل ہے اس لئے ضرورت ہے کہ لوٹی ہوئی دولت کو پس پردہ ہاتھوں سے وصول کرنے کی صورت نکالی جائے عدالتوں میں کیس کو لمبا کرنا اور فیصلے سے پہلے گواہوں یا تفتیش کاروں کو ڈرادھمکا کر منحرف کرنا عام ہتھکنڈے ہیں یہ سابق حکمرانوں کو مظلوم بنارہے ہیں اسلئے حکومت کی زیادہ کوشش کسی نہ کسی طرح سے وصولیاں کرنا ہونی چاہئے اگر بجلی کی طرح گیس بھی سستی ہو جائے تو یہ صنعتی انقلاب کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے اگر اس مد میں حکومت کو بچت ہو تو وہ پٹرول پر ٹیکس کم کرنے کا بھی سوچ سکتی ہے۔