تعلیمی ابتری‘سب کچھ کوروناکاکیادھراہے؟

 یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ تعلیم اور تعلیمی اداروں کی جانب حکومت کے توجہ نہ دینے کی وجہ کیا ہے؟ کورونا میں کمی واقع ہونے کے پیش نظر حکومت نے ملک بھر کے سرکاری‘ خودمختار اور نیم خودمختار اداروں کو اپنے دفاتر مکمل طور پر فنکشنل کرنے اور عملے کی حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی۔ یہاں پر صوبے میں بھی اسی طرح اعلامیہ جاری ہوا مگر یونیورسٹیوں میں16مارچ سے ہوکا جو عالم طاری ہوا وہ تاحال برقرار ہے جب جامعات کی انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا تو جواب ملا کہ حکومت کی طرف سے ہمیں کوئی نوٹیفیکیشن نہیں آیا ہو سکتا ہے کہ حکومت نے تبدیلی کی خاطر اصلاحات کرکے تعلیم اور تعلیمی اداروں کو ملکی نظام سے الگ کیا ہو ورنہ دفاتر بند رکھ کر ونڈو سے کام چلانے اور عملہ کی نصف حاضری کا کیا جواز ہے؟ پشاور یونیورسٹی جیسی قدیم درسگاہ سے ہر سال ساٹھ ستر ہزار سے زائد بیچلر اور ماسٹر طلباءجن میں ریگولر اور پرائیویٹ دونوں شامل ہوتے ہیں شعبہ امتحانات کے زیر اہتمام مئی سے لیکر اگست تک امتحانات دیتے ہیں امتحان کیلئے مروجہ طریقہ کار اور مسلمہ اصولوں پر عملدرآمد لازمی ہوتا ہے جن میں سماجی فاصلہ اولین شرط ہوتا ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے جامعہ کی انتظامیہ نے مذکورہ امتحانات کو تمام تر شرائط‘ اصولوں اور احتیاطی تدابیر کے تحت منعقد کرنے کیلئے حکومت سے اجازت کیلئے جو درخواست دیدی ہے تین مہینے گزرنے کے باوجود اس کا جواب تک نہیں دیا گیا آیا یہ امر اس بات کی دلیل نہیں کہ تعلیم حکومت کے کسی بھی کھاتے میں شامل نہیں آیا حکومت اور ان کے تعلیمی ماہرین اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ امتحان سماجی فاصلے کے تحت ہوتا ہے اور حکومت نے کورونا سے بچاﺅ کیلئے سماجی فاصلے کی جس حد کا تعین کرکے گزشتہ پانچ مہینے سے میڈیا کے تمام تر ذرائع پر اس کی تشہیر کر رہی ہے ۔

امتحانی ہال میں امتحان دینے والے طلباءکے درمیان فاصلہ کورونا والے فاصلے سے کہیں زیادہ ہوتا ہے باقی رہی دوسری احتیاطی تدابیر کی بات تو اس میں بھی کوئی چیز ناممکن نہیں طلباءوالدین اور جامعات تینوں تذبذب اوربے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہیں اور اکثریت کو اس امر نے پریشان کر رکھا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ نویں‘ دسویں‘ گیارہویں اور بارہویں کے طلباءکی طرح بیچلر اور ماسٹر کے طلباءکو بھی پچھلے امتحانات کے مارکس کی عجیب و غریب منطق کے تحت بغیر امتحان دیئے پاس کرنے کا انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے ان کو بھی پروموٹ کرے۔ آن لائن کلاسز‘ آن لائن داخلے جبکہ ٹیسٹ اور امتحانات کو طاق نسیان میں رکھ کر کیا حکومت واقعی پاکستانیوں کو بہتر تعلیم و تربیت دے کر ملک میں تبدیلی لانا چاہتی ہے یا ایسی تبدیلی جس میں سال2019 اور 2020ءکے طلباءآگے چل کر ادارہ جاتی امور اور فرائض کی بجا آوری اور بہتر کارکردگی کی اہلیت سے یکسر محروم ہوں ساری دنیا کورونا کاشکار ہوگئی مگر کہیں بھی اس حد تک تعلیمی بگاڑ سامنے نہیں آیا حکومتی عدم توجہی کے باعث اس تعلیمی بگاڑ کے نتائج کیا ہونگے؟ یہ آنیوالا وقت بتائے گا اعلیٰ تعلیمی کمیشن نے غالباً گزشتہ مہینے کہاتھا کہ یونیورسٹیاں اپنے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے سکالرز بلا کر ہاسٹلوں میں ٹھہرادیں مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یونیورسٹیوں نے کتنے ریسرچرز کو بلا لیا ہے؟ ہاسٹل تو پانچ مہینے سے خالی پڑے ہوئے ہیں ممکن ہے کہ یہ حکومتی بات بھی دفاتر کو فعال کرکے عملہ بلانے کی بات کی طرح ایک ہوائی بات ہو اور حکومت کی توجہ سے مکمل طورپر باہر ہو ۔بی اے ا اور ایم اے کے امتحانات کے بارے میں رابطہ کرنے والے طلباءاور والدین سے ہم فی الوقت اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ معلوم نہیں‘ یہ امتحانات کب تک لٹکتے رہیں گے؟۔