اسلام آباد ہائی کورٹ نے چینی انکوائری کمیشن کی رپورٹ درست قراردیدی 

 

 اسلام آ باد۔ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے برعکس اسلام آباد ہائی کورٹ نے چینی انکوائری کمیشن کیس میں شوگر ملز مالکان کی انٹرا کورٹ اپیلیں مسترد کر دیں اور چینی انکوائری کمیشن رپورٹ کو درست قرار دے دیا۔

 جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس لبنی سلیم پرویز پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کیس کا فیصلہ سنایا جو اسلام آباد ہائی کورٹ نے شوگر ملز کی انٹرا کورٹ اپیل پر 24 جولائی کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

گزشتہ روز سندھ ہائی کورٹ نے چینی انکوائری کمیشن اور رپورٹ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نئی آزادانہ تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ دریں اثنا سندھ ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو متوازی فیصلوں سے کمیشن کی کارکردگی اور رپورٹ پر عملدر آمد ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے جبکہ قانونی و آئینی ماہرین رپورٹ کے مستقبل اور عملدرآمد کے بارے میں بحث چھڑ گئی ہے۔

سندھ کے بیس سے زائد شوگر ملز مالکان نے شوگر انکوائری کمیشن کی تشکیل اور رپورٹ کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔سندھ ہائی کورٹ نے نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر اور دیگر اداروں کو چینی کی قلت سے متعلق دوبارہ تحقیقات کا حکم دیا۔ قبل ازیں سندھ ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ آئندہ سماعت تک کوئی کارروائی نہ کی جائے۔

شوگر ملز ایسوسی ایشن نے اس سے قبل انکوائری رپورٹ کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی درخواست دائر کی تھی۔شوگر ملز ایسوسی ایشن کا موقف تھا کہ چینی انکوائری کمیشن نے چینی کی قیمتوں میں اضافے اور بحران کی تحقیقات کے دوران قانونی تقاضے پورے نہیں کیے۔

انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں چینی بحران کا ذمہ دار ریگولیٹرز کو قرار دیا گیا ہے۔ شہزاداکبر نے بتایا تھا کہ ریگولیٹرزکی غفلت کے باعث چینی بحران پیدا ہوا اور قیمت بڑھی۔ 5 سال میں 29 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے۔

 رپورٹ میں صاف نظر آ رہا ہے کہ ایک کاروباری طبقے نے نظام کومفلوج کر کے بوجھ عوام پر ڈالا ہے۔چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی  (ایف آئی اے)کی تحقیقاتی رپورٹ کا فارنزک کرنے والے کمیشن کی حتمی رپورٹ کے مطابق جہانگیر ترین، مونس الہی، شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ، اومنی گروپ اور عمرشہریار چینی بحران کے ذمے دار قرار دیے گئے ہیں۔