کورونا کا پہلے سا زور تو نہیں رہا مگر اب بھی اس کا خطرہ پوری طرح موجود ہے۔ جس طرح یہ اکا دکا شکار کر رہا ہے اگر ہم نے اسے موقع دیا تو نہیں لگتا کہ یہ ہمیں چھوڑے گا۔ اس کا زور کم ہونے سے حکومت نے بہت سے ادارے کہ جہاں اکٹھ زیادہ نہیں ہوتا یا جہاں احتیاط کا دامن پکڑا جا سکتا ہے ان کو کھول دیا ہے۔ گو کچھ ادارے ایسے ہیں کہ جہاں احتیاطی تدابیر پر عمل ہونا مشکل ہے مگر پھر بھی ان کو کھول دیا گیا ہے۔ جہاں تک تعلیمی اداروں کا تعلق ہے تو اس میں احتیاط کی بہت زیادہ ضرورت ہے اس لئے کہ ان طلباءکے اکٹھا ہونے کی صورت میںاحتیاطی تدابیر کا نافذ کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اس لئے کہ ایک تو بچوں کی تعداد کا یہ حال ہے کہ ہر سکول کالج میں ایک ایک کلاس میں سو سو طالب علم موجود ہوتے ہیں اور اس قدر بچوں کو ایک دوسرے سے فاصلے پر رکھنا کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح شادی کی تقاریب میں بھی لوگوں کا احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ اسی لئے حکومت نے ان اداروں کو کھولنے میں احتیاط کی ہے۔ لیکن جس طرح بازاروں کو کھولا گیا ہے اور جیسا اس میں لوگوں کا رد عمل ہے لگتا نہیںکہ کورونا سے بچنا ممکن ہو سکے گا۔ اس لئے کہ شہروں میں لوگ بچوں سمیت اس طرح نکل رہے ہیں کہ جیسے کورونا کبھی اس ملک میںرہا ہی نہیں ہے۔
بازاروں میں کوئی بھی شخص ان احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا نظر نہیں آتا کہ جو کورونا جیسی بلا سے بچنے کےلئے ضروری ہےں۔ شادو نادر کوئی شخص بازار میں ماسک پہنے نظر آتا ہے اور کورونا ایسے ہی حالات کو اپنے پھیلاو¿ کے لئے ساز گار سمجھتا ہے اور جہاں کہیں بھی ایک آدھ کیس ہے وہ ان ساروں کو اپنی لپیٹ میںلے لے گا او راس کے بعد جو ہوگا وہ بہت خوفناک ہو گا۔ اس لئے کہ ہم احتیاطی تدابیر پر عمل کرکے کورونا کے پھیلاو¿سے تو بچ گئے تھے مگر اب اس بے احتیاطی کی وجہ سے ہم پھراس بلا کو دعوت دے رہے ہیں اور اب کے اگر ہم اسی طرح بے احتیاطی کریں گے تو جو کیسز ابھی اس ملک میں ہیںان کا پھیلاو¿ اس قدر زیادہ ہو گا کہ اس سے پورے ملک کو بچانا ایک سخت عمل ہو گا اس لئے خواہش ہے کہ ابھی سے پابندیاں سخت کر دی جائیں اور اس بلا کو پھیلنے سے روکیں۔ جس طرح ہمیں لوگ سیر گاہوں میں جاتے نظر آتے ہیں اور جس قدر جمگھٹے ان سیر گاہوں میں لگائے گئے ہیں اس سے تو نہیں لگتا کہ کبھی کورونا جیسی خطر ناک وبا اس دنیا میں آئی بھی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی حکمت عملی سے وباءکو زور پکڑنے نہیں دیا گیا مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اس کا ملک سے خاتمہ ہو گیا ہے۔ اب بھی سندھ میں اور پنجا ب میں اس کے لاکھوں کیس ہیں اورجس طرح ہم نے بازار اور دیگر جگہیں کھول دی ہیں اس سے یہ خطرہ بڑھ گیا ہے کہ کورونا کے حملے پھر سے سارے ملک میں جاری ہو جائیں گے اور جس طرح ہماری سیر گاہوں کو کھولا گیا ہے اور جس طرح وہاںپورے ملک سے لوگ آ رہے ہیں اس سے یہ بھی خطرہ پیداہو گیا ہے کہ ان علاقوں میں کہ جہاں کورونا کا کوئی کیس نہیں تھا اب یہاں بھی کورونا کو راہ مل جائے گی او ر ان علاقوں میں بھی کورونا کے حملے شروع ہو جائیں گے اور خطرہ یہ بھی ہے کہ ان علاقوں میںصحت کی سہولیا ت نہ ہونے کے برابر ہیں اگر یہاں کورونا کے حملے شروع ہو گئے تویہ علاقے بھی برازیل نہ بن جائیں۔
اسلئے کہ جہاں صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں ، جہاں کوئی بڑا ہسپتا ل تو دور کی بات ہے کوئی چھوٹی موٹی ڈسپنسری بھی ان علاقوں میں نہیں ہے۔ تو یہاں کے مریض سوائے موت کے منہ میں جانے کے اور کیا کریں گے ۔ اس لئے کہ صحت کی سہولیات بھی نہیں ہیں اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات بھی نہ ہونے کے برابرہیں کہ بیمار شہر کے ہسپتال تک ہی پہنچ پائیں۔ ایسی صورت میں کرونا نے اس ملک کوبرازیل ہی بناناہوگا۔ مگر حکومت اگریہ کرلے کہ ابھی سارے ملک میں اگر لاک ڈاو¿ن نہیں بھی ہوتا تواحتیاطی تدابیرپر سختی سے عمل کرایا جائے تاکہ اس وبا کودوبارہ کو پھیلنے کو موقع نہ مل سکے ۔