کوئٹہ/اسلام آباد: فرنٹیئر کورپس (ایف سی) کے ایک سپاہی کے ہاتھوں مبینہ طور پر قتل ہونے والے کراچی یونیورسٹی کے طالب علم حیات بلوچ کے والد نے تربت ڈسٹرکٹ جیل میں شناختی پریڈ کے دوران ملزم کی نشاندہی کردی۔
مقتول کے والد نے پہلے کہا تھا کہ اگر ایف سی کے اہلکار کو اس کے سامنے لایا گیا تو وہ اسے پہچان سکتے ہیں۔
حیات بلوچ کو بلوچستان میں تربت کے علاقے ابصار میں ہونے والے دھماکے کے بعد کھجوروں کے باغ سے پکڑا گیا تھا اور ایف سی اہلکار نے اسے 8 مرتبہ گولی ماری تھی۔
ملزم شاہد اللہ پہلے ہی پولیس کی تحویل میں ہے اور مقتول کے بڑے بھائی محمد مراد بلوچ کی شکایت پر اس کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
کیچ کے ضلعی پولیس افسر نجیب اللہ پنڈرانی نے بتایا کہ شناختی پریڈ جیل میں جوڈیشل مجسٹریٹ کی نگرانی میں کی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ ملزم کے ساتھ دیگر قیدیوں کو بھی ساتھ لایا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'حیات بلوچ کے والد نے شناختی پریڈ کے دوران تین مرتبہ مشتبہ شخص کی شناخت کی'۔
دریں اثنا ایف سی بلوچستان نے واقعے سے متعلق ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ 13 اگست کو تربت میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں دہشت گردوں نے ابصار کے علاقے میں ایک ایف سی قافلے کو آئی ای ڈی (دیسی ساختہ دھماکہ خیز آلے) سے نشانہ بنایا اور اس کے نتیجے میں ایک نان کمیشنڈ افسر سمیت تین اہلکار زخمی ہوگئے۔
بیان کے مطابق واقعے کے بعد علاقے میں موجود حیات بلوچ سمیت کچھ مقامی لوگوں سے واقعے کے بارے میں پوچھ گچھ کی جارہی تھی کہ دوران تفتیش ایف سی کے سپاہی نائیک شاہد اللہ نے غیر ذمہ دارانہ رویہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں حیات بلوچ زخمی ہوگیا اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔