اسلام آباد ہائی کورٹ میں فلسطینی سفیر کی گاڑی ضبط کرنے کا معاملہ چیلنج
فلسطین کے سفیر احمد جواد اے ربیع نے سفارتی استثنیٰ کے تحت پاکستان درآمد کی جانے والی اپنی گاڑی ضبط کرنے کے عمل کو اورفیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ذریعے جاری کردہ شوکاز نوٹس دونوں کو
چیلنج کر دیا ہے۔
بدھ کے روز سفیر کی جانب سے وکیل سکندر نعیم قاضی نے درخواست دائر کی،تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اس درخواست کی سماعت (آج) جمعرات کو کریں گے۔
درخواست کے مطابق سفیر نے ویانا کنونشن کے تحت استثنیٰ حاصل کیا لیکن ایف بی آر نے سفارتی استثنیٰ کے تحت پاکستان درآمد کی جانے والی گاڑی فروخت کرنے پر انہیں 4اگست کو شوکاز نوٹس دیا تھا۔
ایف بی آر کا 4 اگست کا شوکاز نوٹس کاروباری شخصیت بیسل احمد آفندی کو بھی جاری کیا گیا جس میں انہیں آگاہ کیا گیا کہ گاڑی مستقل طور پر ضبط کی جاسکتی ہے اور انہیں گاڑی کی قیمت کے 10 گنا تک جرمانے کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
نوٹس میں کہا گیا کہ اسلام آباد میں ریاست فلسطین کے سفارت خانے کے سفیر اور باسل احمد آفندی سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ وجہ بتائیں کہ قبضہ میں کی گئی گاڑی کو کیوں ضبط نہیں کیا جانا چاہیے اور کیوں کسٹم ایکٹ 156 کی خلاف ورزی پر ان کے خلاف پینل ایکشن نہیں لیا جانا چاہیے۔
منگل کے روز مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے سینیٹ میں یہ معاملہ اٹھایا اور کہا کہ ایف بی آر نے سفیر سے معافی مانگ لی ہے لیکن یہ قابل قبول نہیں تھا کیونکہ ایسا ایسے وقت میں ہوا تھا جب مسلم ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سفارت کار کو نہ صرف دو کاروں کی درآمد سے متعلق نوٹس پیش کیا گیا بلکہ ایف بی آر کے سامنے پیش ہونے کو بھی کہا گیا جو ویانا کنونشن اور دیگر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
مزید برآں انہوں نے کہا ان کی کاریں ضبط کرلی گئیں جو دوست ملک کے سفیر کے ساتھ "زیادتی" کا ارتکاب ہے۔
سینیٹ کے چیئرمین نے معاملہ مشاہد حسین سید کی سربراہی میں قائم خارجہ امور سے متعلق کمیٹی کے حوالے کردیا ہے اور کمیٹی سے کہا ہے کہ وہ ایوان میں رپورٹ پیش کرے۔
تاہم قائد ایوان شہزاد وسیم نے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر کی جانب سے ایف بی آر کے نوٹس کو فلسطین کے مسئلے سے جوڑنے کے عمل پر افسوس کا اظہار کیا اور اسے "نامناسب" قرار دیا۔
تاہم سفیر نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ابھی تک فلسطین کے سفارتخانے کو ایف بی آر کی طرف سے تحریری طور پر کچھ موصول نہیں ہوا اور اسی وجہ سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے۔