حکومت کے دوسال اورمستقبل سے امیدیں

 حکومت نے دو سال پورے کرلئے ہیں اور اب پرعزم ہے کہ پانچ سال بھی مکمل کرلے گی اب یہ دو سال عوام نے کیسے گزارے ہیں یہ الگ معاملہ ہے لیکن حکومت اوروزیراعظم یقین دلا رہے ہیں کہ مشکل وقت گزر چکا ہے اب آسانیاں آئیں گی اور ترقی ہوگی وزیراعظم عمران خان کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ پہلے وزیراعظم ہیں جو22سال سیاسی جدوجہد کرکے اور عوام کی حمایت سے اقتدار میں آئے جبکہ انکے پیش رو اور موجودہ مخالفین فوج یا کسی دوسری شخصیت کی پرچی لیکر براہ راست اقتدار میں آتے رہے اگر یہ سچ بھی مان لیا جائے تو پھر بھی انکے پاس حکومت کا کوئی تجربہ نہیں تھا ‘ ہر حکومت کی طرح انکا بھی پہلا سال سابقہ حکومت کی غلطیاں گنوانے اور خزانہ خالی ہونے کا رونا روتے گزرگیا لیکن دوسرے سال میں سابقہ قرضوں کی واپسی کیلئے نئے قرضوں کے حصول کی کڑی شرائط کے باعث مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا اس دوران دنیا میں کورونا کی وبا ایک قیامت بن کر نازل ہوئی اس وبا نے بڑی طاقتوں اور ترقی یافتہ ممالک کو بھی بے بس کردیا پاکستان کی حالت پہلے ہی معاشی طورپر کمزور تھی لیکن کورونا بحران کے باعث حکومت کیلئے کچھ مشکل فیصلے آسان ہوگئے اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں نے قرضوں کی واپسی موخر کردی ساتھ ہی امداد بھی ملنے لگی سچی بات ہے کہ دوست ملک چین نے تو ہمیں ادویات‘ فیس ماسک‘ دیگر حفاظتی لباس وسامان میں کسی دوسرے ملک کا محتاج نہیں رہنے دیا بلکہ ہم نے چین کے عطیہ کئے سامان کو دوسرے ممالک میں بھیجا بھی‘ بہرحال اس بحران میں وزیراعظم نے لاک ڈاﺅن بھی کیا لیکن ساتھ ہی بے روزگار ہونے والے اور معاشی طورپر متاثرہ خاندانوں میں نقد امداد تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ۔

اور احساس پروگرام کے تحت شفاف رجسٹریشن اور امداد تقسیم کا نظام بنایا اس فیصلے پر دنیا نے پاکستان کی تعریف اور تقلید کی اگرچہ دولاکھ کے قریب مریض اور6000 اموات نے ملک کو ہیجان میں رکھا لیکن صحت یاب ہونیوالوں کی حوصلہ افزاءشرح نے بیماری کو نفسیاتی نہیں بننے دیا اس سال حکومت نے5000 ارب روپے قرضوں کی واپسی بھی کی اور وزیراعظم اصل معاشی مسائل کو سمجھ سکے اس حوالے سے گزشتہ روزوزیراعظم نے بتایا کہ پنشن کی ادائیگی خزانے پر سب سے بڑا بوجھ ہے اور اس کیلئے ایک پنشن فنڈ قائم کر رہے ہیں تاکہ مستقبل میں یہ بوجھ کم ہوسکے حکومت کے منشور کا سب سے اہم نکتہ احتساب اور کرپشن کا خاتمہ تھا اس میں شک نہیں کہ تمام تر دباﺅ کے باوجود وزیراعظم نے احتساب پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا سابقہ حکمرانوں کے خلاف کرپشن اور منی لانڈرنگ کے کیس عدالتوں میں ہیں جبکہ چینی اور آٹے کی قلت کرکے ناجائز منافع کمانے اور سبسڈی کی آڑ میں اربوں روپے ہڑپ کرنے والے بااثر لوگوں میں اپنے قریبی ساتھیوں کو بھی معاف نہیں کیا حال ہی میں پنجاب کے وزیراعلیٰ کو بھی نیب نے طلب کیا ہے جو حکومت کے کرپشن کیلئے عدم برداشت کے نظریئے کی سچائی ہے باقی جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے تو وہ ان دو سالوں کو ناکام ترین بلکہ سیاہ ترین دور کہتی ہے وہ حکومت کی طرف سے سابقہ ادوار کے کھاتوں سے2300ارب روپے لینے کو بھی کریڈٹ نہیں دیتی اپوزیشن کے الزامات اور مہنگائی کے حقائق اپنی جگہ لیکن اب حکومت مشکل سے نکلتی نظر آرہی ہے ۔

برآمدات میں اور سمندرپار پاکستانیوں کی طرف سے زرمبادلہ کی ترسیل میں اضافہ اور بجٹ خسارے میں کمی سے معیشت کو سہارا ملنے کا امکان ہے بجلی کمپنیوں سے نئے معاہدوں سے بھی بہتری آئے گی اور حکومت پرامید ہے کہ آنے والے سال عوام کیلئے آسانیاں آئیں گی ترقی کا سفر تیز ہوگا اور عالمی سطح پر پاکستان کاامیج مزید بہتر ہوگا اور عوام بھی امید پر ہی زندہ ہیں کہ اچھے دن کب آتے ہیں۔
۔