طاقت و حکمرانی کا عنقا کبھی ایک کے سر پہ جا بیٹھتا ہے اور کبھی دوسرے کے سر پر۔ یہ ایک معمول ہے کہ بادشاہت کبھی ایک کے گھر کی لونڈی بن کر نہیں رہتی ۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہاں بڑے بڑے حکمران گزرے ہیں مگر دائمی سلطنت کسی کی قائم ہو سکی ہے اور نہ ہو گی۔ آج جو کوئی تخت پر بیٹھا ہے کل کو نیچے بھی اتر سکتا ہے اور اتر کر اگر گھر نہیں جاتا تو جیل ضرور چلا جاتا ہے۔ ہندوستان کی تاریخ تو ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ ایک وقت کے بعد تحت بھی اور تاج بھی کسی دوسرے کے سر پر سجتا رہا اور یہ بھی کہ جس کے سر پر آج تاج ہے تو کل اُس کے لئے کال کوٹھڑی تھی ۔یہ برصغیر کی تاریخ کا حصہ ہے کہ جب تک باد شاہت تھی تو بھی یہی کچھ ہوتا نظر آیا ہے اور جب جمہوریت ہے تو بھی یہی کچھ نظر آ رہا ہے۔ جمہوریت کبھی آمریت میں بدلی اور کبھی آمریت جمہوریت میں اور حکمرانی کا تاج کبھی ایک کے سر پر دکھائی دیااور کبھی دوسرے کے سر پر ۔ جس نے اس تاج کی قدر کی اسے اچھے نام سے یا درکھا گیااور جس نے ا س کواپنے مفاد کیلئے استعمال کیا اُس کا نام و نشان بھی مٹ گیا ۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہمارا جو بھی سیاست دان لیڈر اس تخت پر پہنچا وہ آنے سے قبل ہی ایک ذہن بنا لیتا ہے کہ جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں وہ ان سب سے بہتر ہے اور اسی موقف نے اُس کی پارٹی کو جتوایا اور وہ حکومت میں آ گیا مگر جمہوری رویہ یہ ہے کہ انہوںنے اس نعرے کو صرف الیکشن جیتنے تک اپنے پاس رکھا او ر جب اقتدار مل گیا تو اس نعرے کو کہیں دفن کر دیا اور جو حکومت میں تھے اور اب حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھ گئے ہیں وہ بھی عوام کی ہی نمائندگی کر رہے ہیں ۔
یہ الگ بات ہے کہ ان کی پارٹی اتنے ووٹ نہیں اٹھا سکی کہ وہ حکومت بنا سکیں اس لئے وہ بائیں جانب کی نشستوںپر بیٹھے ہیںمگر ہیں تو عوامی نمائندے ہی۔ جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ جو بھی سیاسی پارٹی جیت کے آتی ہے وہ ہارنے والی پارٹی کو گلے لگاتی ہے اور دونوں پارٹیاں مل کر ملک کو آگے بڑھانے کی بات کرتی ہیں ۔ اب جو لوگ اسمبلی ہال میں دائیں جانب کی نشستوں پر ہیں وہ بھی اور جو بائیں جانب کی نشستوں پر ہیں وہ بھی عوام کے ہی چنیدہ ہیں اس لئے وہ جو بھی سوچیں گے وہ اپنے ملک کی بہتری کا سوچیں گے ۔
اب بائیں جانب کی نشستوں پر براجمان ارکان کو دائیں جانب کی نشستوں پر بیٹھنے والوں کاہاتھ بٹانا ہوتا ہے اگر حکومتی پارٹی کچھ غلط کرنے جا رہی ہے تو حزب اختلاف اُس کا ہاتھ روکے گی اور اُس کو قائل کرے گی کہ اُس کے یہ اقدام ملک کی بہتری نہیں کریں گے لہٰذا حکومتی پارٹی کو یہ اقدام نہیں اٹھانا چاہئے اورحکومتی پارٹی بھی اس پر غور کرتی ہے اور اسمبلی میں اس بات پر بحث ہوتی ہے ، اگر بات ملک کے خلاف بنتی نظر آتی ہے توحکومتی پارٹی اپنے موقف سے ہٹ جاتی ہے اور اس میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتی اس لئے کہ جو کام ہو رہا ہے وہ ملکی مفاد میںہے۔ اس میں کوئی انا کی بات نہیں ہوتی اس لئے کہ اسمبلیاںاسی خاطر ہوتی ہیں کہ وہ کسی بھی اقدام پر بحث مباحثہ کر کے اُس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرتی ہیں اور اراکین ملکی مفاد میں قدم ملاکر آگے بڑھتے ہیں۔ جہاں انا درمیان میں آ گئی تو سمجھو کہ ملکی مفاد پر ضرور زد پڑے گی۔اس لئے حکومتی پارٹی کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی بات پرا ڑے نہیں بلکہ جو بات ملکی مفاد میں ہے اُس کی طرف جھک جائے۔حزبِ اختلاف بھی اس ملک کے چنیدہ لوگ ہوتے ہےں اوروہ بھی ملک کے اتنے ہی وفادار ہوتے ہےں کہ جتنے حکومتی پارٹی کے لوگ ہوتے ہےں۔ اسمبلیوں کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی بات حکومت کرنے جارہی ہے تو اس کے سیاہ و سفید کا فیصلہ کر لیا جائے اور اگر بات عوام کے مفاد میں ہے تو بہت بہتر اور اگر ملک مفاد میں نہیں ہے تو بات واپس لے لی جائے۔ یہی جمہوریت ہے اور اسے یوں ہی چلنا چاہئے۔