معروف کامیڈین امان اللہ (مرحوم) کا انٹرویو انتہائی خوشگوار ماحول میں جاری تھا۔ اچانک میزبان نے اپنے مخصوص انداز میں پوچھا کہ کتنی شادیاں کی ہیں اور بچے کتنے ہیں؟ اس سوال نے ماحول سوگوار کردیا۔ امان اللہ انتہائی دکھی ہوکر بولے کہ انسان کو کبھی بھی دوسری شادی نہیں کرنی چاہیے۔ اگر آپ کو دوسری شادی کرنی ہے تو آپ عرب میں چلے جائیں، وہاں جاکر بھلے آپ دو سو شادیاں کریں۔ مگر ہمارا نظام اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ آپ دوسری شادی کرکے پچھتاتے ہی رہتے ہیں۔ اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو کرکے دیکھ لے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارا معاشرہ دوسری شادی کو قبول نہیں کرتا، جس کے تین بڑے نقصانات سامنے آرہے ہیں۔
1۔ ہمارے ہاں غیر شادی شدہ لڑکیوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔
یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شادی کی عمر کو پہنچنے والی ایک کروڑ سے زائد لڑکیاں (بیس سے پینتیس سال) شادیوں کے انتظار میں بیٹھی ہیں۔ ان میں سے دس لاکھ کے قریب لڑکیوں کی شادی کی عمر گزر چکی ہے۔ قابل فکر بات یہ ہے کہ شادی کے انتظار میں بیٹھی لڑکیوں میں 75 فیصد تعلیم یافتہ ہیں۔
2۔ وطن عزیز میں بیواؤں کی تعداد گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔
تنہا رہنے والی بیوائیں جن کی عمریں 30 سے 45 سال کی ہیں، تقریباً 60 لاکھ تک کی تعداد میں موجود ہیں۔ مطلب یہ کہ یہ وہ بیوائیں ہیں جن کی دوسری شادی ممکن ہے، جن کی کفالت کیلیے ملک میں کوئی سرکاری و غیر سرکاری مضبوط و مربوط نظام موجود نہیں۔
3۔ طلاق یافتہ لڑکیوں/ خواتین کی شرح میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔
وطن عزیز میں طلاق کی شرح میں بھی ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 1970 میں وطن عزیز میں طلاق کی شرح 13 فیصد تھی، جو اب بڑھ کر 60 فیصد سے زائد ہوچکی ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ طلاق میں اضافے کی ایک وجہ فیملی کورٹس ایکٹ 2015 بھی ہے۔ جس کی دفعہ 6 کے تحت خلع کے عمل کو آسان تر کردیا گیا ہے۔ ماضی کے مقابلے میں 2018 میں طلاق کی شرح میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 2018 میں صرف لاہور کے فیملی کورٹس میں خلع کے 15800 دعوے دائر ہوئے۔
مندرجہ بالا صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس سے پہلے پانی سر سے گزر جائے ہم اپنی اصلاح کرلیں۔ بصورت دیگر ہمارا شکست خوردہ خاندانی نظام بری طرح زمیں بوس ہوجائے گا۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم دوسری شادی کو فروغ دیں۔ شادی شدہ لڑکیاں اپنے جیسی لڑکیوں کا درد محسوس کرتے ہوئے وسیع القلبی کا مظاہرہ کریں۔ آنے والی بھی اعتدال کا مظاہرہ کرے، ایک مثالی ساتھی بن کر دکھائے تاکہ دوسروں کو بھی حوصلہ ہو اور اچھی روایت کو فروغ ملے، نہ کہ لوگ دوسری شادی کا انجام دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگائیں۔
رشتے کے انتخاب کی حد سے زیادہ بڑھتی مانگیں ختم یا کم ازکم کرکے رشتوں کو آسان بنایا جائے۔ رشتے بروقت طے کیے جائیں۔ تعلیم اور دیگر غیر ضروری وجوہات کی بنا پر تاخیر سے گریز کیا جائے۔
وطن عزیز میں جہیز کی لعنت کو مکمل بین کردیا جائے۔ اس سلسلے میں حکومت اور عوام دونوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ جیسے ہم ایک نشہ کرنے والے کو برا سمجھتے ہیں ایسے ہی جہیز لینے اور دینے والے کو سمجھانے کی کوشش کیجئے۔ بصورت دیگر ایسے افراد/ خاندان کا سماجی مقاطع کیا جائے۔
اگر آپ لڑکے والے ہیں تو وہ درد جو بن بیاہی، عمر رسیدہ ہوجانے والی لڑکیوں کے والدین کے کلیجے میں اٹھتا ہے، اس کو محسوس کرنے کی کوشش کیجئے۔
ایک آخری بات کہ والدین اپنے بیٹے کو ڈاکٹر، پائلٹ ضرور بنائیں لیکن ایک اچھا شوہر بھی ضرور بنائیں۔ اور مائیں بیٹیوں کی تربیت ایسے کریں کہ وہ ایک اچھی بیوی/ بہو/ ساس بن سکیں۔ تاکہ معاشرے میں طلاق کی شرح کم کرنے میں مدد مل سکے۔