ہمارے دور طالب علمی میں خوش کن لمحے صرف وہ ہوتے تھے کہ جب گرمی کی لمبی چھٹیاں ہوتی تھیںگو ہمارے اساتذہ کرام ہمیں فارغ تو نہیں چھوڑتے تھے ۔کسی مضمون کی بھی کاپی کھولتے تو وہاں چھٹیوںکے کام کی ایک لمبی فہرست ہوتی تھی مگر پھر بھی ہم کو ان دو ڈھائی مہینوں میں چھٹیوںکے کام کی توفکر نہیں ہوتی تھی اس لئے کہ یہ سارا کام تو ہم ایک دو دن میںہی کر ڈالتے تھے۔ بس خوشی اس بات کی ہوتی تھی کہ دو ڈھائی ماہ ہمیں مولا بخش سے نجات مل جاتی تھی۔ ویسے بھی دوران پڑھائی بھی ہماری اور مولا بخش کی ملاقات کم کم ہی ہوتی تھی اس لئے کہ ہم گھر کے کام میں ہمیشہ ساری کلا س سے آگے ہوتے تھے اور عموماً سکول کی گھنٹی بجنے سے پہلے ہمارے گھر کے کام کی کاپیاں دوستوں کے قبضے میں رہتی تھیں اور جب ہم ترانے کے بعد واپس کلاس میںآتے تھے تو ہمیں وہ کاپیاں وا پس ملتی تھیں اور کلاس میں بھی اگر استاد محترم کوئی سوال جواب کرتے تو ہمیں جواب دینے میں کبھی مشکل پیش نہیںآئی ۔ صرف ہمیں جو تکلیف ہوتی تھی وہ اس وقت کہ جب ہمارے دوستوں کی سوال جواب میں مولابخش سے ملاقات ہوتی تھی ۔ باوجود اس کے کہ ہمیں سبق یاد ہوتا تھا مگر جیسے جیسے ہمارے ہم جماعت استاد مکرم کے ہاتھوں پٹ رہے ہوتے تھے تو ہمارے دل کی دھڑکن خواہ مخواہ تیز ہوتی رہتی تھی ۔ہم نے سبق کے سنانے میں کبھی مار نہیں کھائی مگر ہم امتحان میں کبھی بھی اچھے نمبر نہیں لے پائے اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ہمیں سوالوں کے جواب نہیں آتے تھے بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم بری طرح بد خط واقع ہوئے تھے اور شاید ہمارے اساتذہ پرچوں پر نمبر لگاتے وقت ہماری لکھائی سے بیزار ہو جاتے تھے اور ہمیںخوشخطی کے نمبر نہیں دیتے تھے اور ان نمبروں کے ساتھ ہمارے جوابوں کے نمبر بھی کاٹ لیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سوائے حساب کے کسی بھی پرچے میں ہمارے کبھی اچھے نمبر نہیں آئے۔
حساب میںاس لئے کہ اس میں خوشخطی کے نمبر نہیں ہوتے اور ہندسے لکھنا کوئی مشکل بات تو نہیں ہوتی اور نہ ان میںخوشخطی کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اسی مضمون کی محبت میں گرفتا ر ہو گئے اور اسی مضمون میں ایم ایس سی کر ڈا لی۔ اگر اس میں بھی خوشخطی کی بات ہوتی تو شاید ہم کبھی بھی اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کر پاتے تو بات ہورہی تھی چھٹیوں کی تو ہمیں کیا سارے ہی طلباءکو ان کا انتظار بھی رہتا تھا ۔ ہم چونکہ دیہاتی واقع ہوئے ہیں اس لئے چھٹیوں میں ہمیں سیر سپاٹے کو تو کوئی نہیں چھوڑتا تھا اور نہ ہمارے ہاں یہ سیر سپاٹے کی بیماری ہوا کرتی تھی صرف یہ کہ جب ہمیں چھٹیا ںہوتیں تو ہمارے بزرگوںکو دو ماہ کیلئے مویشی چرانے سے فرصت مل جاتی اس لئے کہ یہ کام ہمارے ذمہ لگ جاتا اور ہم مویشی چرانے کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ سکول کی چھٹیوں کا کام بھی کر لیتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری کھیل کود کا کام بھی چلتا رہتا تھا جس میں گلی ڈنڈا اور دیگر چھوٹے موٹے کھیل کہ جو ہم مویشیوںکوچرانے ساتھ ساتھ کھیل سکتے تھے ۔
یہ عرصہ بھی جلد ختم ہو جاتا تھا اور پھر سے وہی ہماری کتابیں اور اساتذہ کرام کا ڈنڈا جس سے ہمیںروز ہی پالا پڑتا تھا۔ خدا خدا کر کے میٹرک کا مرحلہ ختم ہوا اور ہم کالجیٹ بن گئے۔یہاں آ کر کچھ باتیں بہت عجیب ہو گئیں کہ نہ کوئی گھر کا کام ملتا اور نہ کوئی پوچھتا کہ کلاس میں کیوں نہیں آئے۔ جس کا جی چاہتا کلاس اٹینڈ کرتا اورجی نہ چاہتا تو کالج کی کینٹین تو بہرحال ہے ہی اور اگر وہاں بھی نہیں تو کالج کے درختوں کی مزیدار چھاو¿ں تو انسان کو اپنی جانب کھینچتی ہی ہے اور ہمارے ایبٹ آباد کالج کے درختوں کی چھاو¿ ں کی تو کیا بات ہے۔ گرم گرم دوپہر میں ٹھنڈی ٹھنڈی چھاو¿ں سے اٹھنے کو کس کا جی چاہتا ہے اگر پیریڈ ضائع ہوتا ہے تو ہو مگر چھاو¿ں کا لطف تو واہ ¾اور پھر کسی نے کچھ پوچھنا بھی نہیں اس لئے خوب لطف اٹھایا گیا اور جب امتحان سر پہ آتے تو پھر ہاتھ پاو¿ں پھول جاتے او رہر کوئی خود کو کمروں میں بند کر لیتا ۔ نہ کھیل کود اور نہ میل ملاپ بس ایک ہی فکر کی کسی طرح امتحان میں فیل نہ ہوجائیں۔ بس وہ دن بس ایک یاد بن کے ابھی تک ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور اُن دنوں کے دوست یار اب صرف خیالوں میں ہی ملاقات کا شرف بخشتے ہیں۔ اللہ سب کو سلامت رکھے ور اپنے بال بچوں میںخوش رکھے۔