نئی عالمی گروپ بندی اورپاکستان

دنیا کی نئی سیاسی و سفارتی تقسیم کا عمل جاری ہے اور پاکستان جیسے ممالک کے لئے اس میں امکانات بھی بہت ہیں اور غلط فیصلوں سے نقصانات بھی ہیں یہ اچھی شروعات ہے کہ ہماری قیادت کو تبدیل ہوتی دنیا میں اپنے مفاد کا درست ادراک ہے یہ پاکستان ہی تھا جس نے سوویت یونین کو توڑنے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا لیکن اس سے عالمی طاقت کا توازن خراب ہوگیا اور امریکہ واحد سپرپاور کی صورت میں سامنے آیا امریکہ نے اپنی اس حیثیت کو احساس ذمہ داری سے استعمال کرنے اور دنیا میں امن کو فروغ دینے کی بجائے سابقہ سوویت بلاک کے عرب ممالک کو تباہ کرنے پر زیادہ توجہ دی اس کا مقصد اسرائیل کو تحفظ دینا تھا جس کیلئے عربوں کے ہی وسائل استعمال کئے لیکن فطرت کا نظام ہے کہ خالی جگہ کیلئے کوئی انتظام ہو جاتا ہے جس وقت امریکہ دنیا میں جنگ اور بارود برآمد کر رہا تھا چین چپکے چپکے تعمیر و ترقی کا پیغام لیکر دنیا میں اپنا اثر بڑھا رہا تھا پاکستان کے ساتھ تو چین کے تعلقات1970 سے اچھی دوستی کی مثال ہیں لیکن امریکہ کو اس بات کا احساس تب ہوا جب چین کی مصنوعات نے امریکہ کی صنعت و معیشت کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی پھر چین نے ایک خطہ‘ ایک روڈ کے ذریعہ دنیا کو ملانے کا آغاز کردیا پاکستان کیلئے چین پاکستان اکنامک کوریڈور(CPEC) ایک انقلابی منصوبہ آیا اگرچہ امریکہ اور بھارت نے اس منصوبے کو روکنے کیلئے سفارتی حربے اور دہشت گردی کا بھی سہارا لیا لیکن دونوں ممالک اپنے عزم پر ڈٹے رہے اور اب سی پیک ایک حقیقت بن کر سامنے آرہا ہے چین کی اس سفارتکاری اور عالمی اثرورسوخ روکنے کیلئے امریکہ اور بھارت نے بھی کوششیں شروع کیں بھارت نے چین کے ساتھ سرحد پر کچھ چھیڑ خوانی کی مگر چین کی فوج نے دانت کھٹے کردیئے دوسری طرف ایران نے کھل کر چینی بلاک میں شمولیت کا اعلان کردیا۔

 امریکہ نے اپنے اثرورسوخ سے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کرادیئے جس کے بعد عرب دنیا میں ہلچل مچی ہوئی ہے ‘ عرب عوام دل سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں گزشتہ روز ایک ویڈیو میں بحرین کی پارلیمنٹ میں ایک رکن نے اسرائیل کاجھنڈا جلایا اسی صورتحال میں پاکستان نے دوٹوک فیصلہ کرلیا ہے کہ عرب ممالک کے اسرائیل کے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے بعد بھی پاکستان ایسا نہیں کرے گا اور سعودی عرب سمیت عرب ممالک سے اپنے تعلقات کو مضبوط بنائے گا یو اے ای میں اسرائیلی سفیر کی آمد سے پہلے ہی موساد کے ایجنٹ آنا شروع ہوگئے ہیں جس سے اس سے خطے میںامن کولاحق خطرات مزید بڑھتے گئے ہیں ، یعنی مشرق وسطیٰ میں حالات امن کی طرف نہیں بلکہ جنگ کی طرف جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس وقت ایران کے چین کے ساتھ تعلقات اور نئے تجارتی معاہدے نئے بلاک کی تقسیم میں اہم دکھائی دیتے ہیں جنوبی ایشیا میں صرف بھارت ایسا ملک ہے جو پاکستان اور چین کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ منسلک ہے اسی وجہ سے ایران نے بھی اس سے معاہدے منسوخ کردیئے ہیں ۔

جس طرح اسرائیل فلسطین کو ہڑپ کرنے کے درپے ہے اسی طرح بھارت کشمیر کو ہڑپ کرنا چاہتا ہے اور امریکہ دونوں کی حمایت کر رہا ہے لیکن پاکستان کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطلب بھارت کیلئے کشمیر سے دستبردار ہونے کے مترادف ہے اور اسی لئے ہماری سیاسی و عسکری قیادت اس پر متفق ہے کہ ہم کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرینگے ابھی امریکہ افغانستان میں پھنسا ہوا ہے اس لئے پاکستان کی مدد کا خواہاں ہے مگر یہ طے ہے کہ مستقبل کی عالمی دھڑے بندی میں ہم چین کے قابل اعتماد اتحادی ہونگے اور ہم پر دباﺅ کو کم کرنے کیلئے چین مزید مالی مدد دینے کو بھی تیار ہے تاکہ کوئی دو سراملک ہمیں اپنی دولت سے مرعوب یا بلیک میل نہ کرسکے موجودہ عالمی تناظر میں چین ہی ہمارا قابل بھروسہ دوست ثابت ہوا ہے اور ہمیں اس کو چھوڑنے کی غلطی نہیں کرنی چاہئے۔ چین اور پاکستان کی دوستی ہر آزمائش پر پوری اتری ہے اور موجودہ حالات میں یہ زیادہ دور رس اثرات کی حامل ہے‘چین کے ساتھ مل کر ہی ہمیں اس سمت میں سفر کرنا چاہئے جس میں پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا راز ہے اور وہ ہے سی پیک کے منصوبوں کی بروقت اور تیزی کے ساتھ تکمیل۔اس ضمن میں کسی بھی رکاوٹ کو حائل نہیں ہونے دینا چاہئے اسی سے ملک کا وسیع تر مفاد وابستہ ہے ۔