جامعہ مقروض

 کہتے ہیں کہ قدیم درسگاہ جامعہ پشاور کی مالی حالت اس قدر ابتر ہوگئی ہے کہ پنشن اور تنخواہوں کیلئے قرضہ لیکر کام چلا رہی ہے مگر کب تک؟ ادھار کہاں سے لیا جاتا ہے؟ یہ معلوم کرنا ضروری نہیں مالی بدحالی کے باوجود خرچے یا بہ الفاظ عرف عام شاہ خرچیاں کم ہوئیں یا روز افزوں بڑھ رہی ہیں؟ اس بابت کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں، مالی ابتری کی وجوہات کیا ہیں؟ حالات کا نہایت قریب سے مشاہدہ کرنیوالے عاقبت اندیش لوگوں کے مطابق سب سے پہلی اوربڑی وجہ حکومت کی طرف سے اعلیٰ تعلیمی بجٹ میں بے تحاشہ کٹوتی ہے جس کے باعث مالی سال2019-20 کے دوران جامعات اور ریسرچ سنٹروں کو گرانٹ کے15سے20فیصد کم یعنی کٹوتی والے جو چیک اعلیٰ تعلیمی کمیشن اسلام آباد سے مل رہے تھے خیر سے مالی سال 2020-21 میں وہ کٹوتی مزید بڑھ کر 20سے25 فیصد ہوگئی ہے دوسری بڑی وجہ ملازمین کی تعداد ہے آیا یہ معلوم کرنا ضروری نہیں کہ یونیورسٹی میں طلباءکی تعداد کے حساب سے ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ سٹاف کی تعداد کا جو تعین کیا ہے جامعہ میں یہ تناسب کیسا ہے؟

کم ہے یا زیادہ؟ میرے خیال میں یہ معلوم کرنے کی زحمت اگر کوئی گوارا کرے تو بہتر ہوگا اس چھان بین میں اگر یہ بھی معلوم ہوجائے کہ آیا غیر تدریسی سٹاف اگر ضرورت سے زیادہ ہے تو یہ کس نے بھرتی کیا ہے گزشتہ مخلوط سیاسی حکومتوں کے بڑوں اور یونیورسٹی افسران نے ملکر؟ یا قصہ کہانی کچھ اور ہے؟ جہاں تک جامعہ کے ایڈمنسٹریٹو افسران اور اساتذہ کا تعلق ہے تو ان دونوں حلقوں کے مطابق آفیسرز لیول کے ملازمین اور اساتذہ کی زیادہ تر پوسٹیں خالی پڑی ہیں درحقیقت جامعہ کی بدحالی کی ابتداءاس وقت ہوئی جب آج سے تقریباً ایک عشرہ قبل ایک مخلوط سیاسی حکومت نے ملازمین کی تنخوہوں اور پنشن میں یکمشت 50فیصد اضافہ کرکے اس کی ادائیگی کیلئے یونیورسٹیوں کی گرانٹ میں اضافے کی بجائے30فیصد کمی کردی بعدازاں عبوری اضافے کو پنشن اورتنخواہ کا مستقل حصہ بنادیاگیا اور ساتھ ہی 30فیصد کٹوتی بھی واپس لے لی جہاں تک مالی طورپر کڑے وقت اور اس میں غیر ضروری اخراجات سے بچنے کی بات ہے تو اگر کوئی برا نہ منائے تویونیورسٹی فضول خرچی سے بچنا تو دور کی بات بلکہ بعض اخراجات تو قاعدے اور قانون سے ماوراءبھی ہور ہے ہیں ۔

مثال کے طور پر گاڑیوں اور ائرکنڈیشنڈ کے استعمال بارے بارہا آفس آرڈر جاری کردئیے گئے مگر عملدرآمد کہیں بھی نظر نہیں آیا کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت سے مایوس یونیورسٹی کی انتظامیہ سے صوبائی حکومت نے مالی بحران میں مدد دینے کی غرض سے25 کروڑ روپے کی گرانٹ کا وعدہ کیا تھا مگر اس میں سے محض10کروڑ دیئے گئے جس سے پنشن کے بقایا جات کی ادائیگی ممکن ہو سکی جبکہ باقیماندہ15 کروڑ کیلئے جامعہ کی خاتون ٹریژرر اور رجسٹرار کے حوصلے سیکرٹریٹ کے چکر کاٹ کاٹ کر پست پڑنے لگے ہیں یونیورسٹی کے درجن بھر لیکچرارز اور سینکڑوں کلاس فور کنٹریکٹ ملازمین کے کنٹریکٹ کی مدت گزشتہ مہینے ختم ہوچکی ہے دونوں احتجاج کر رہے ہیں مگر کیا کریں کہ یہ معاملہ یونیورسٹی پر عائد حکومتی پابندی کا کیا دھرا ہے یونیورسٹی اساتذہ نے پیوٹا اور انٹولیکچول فورم کے زیر اہتمام احتجاج کیا مگر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا کنٹریکٹ ملازمین معیاد ختم ہونے کے باوجود کام کر رہے ہیں لیکن یونیورسٹی جب مستقل ملازمین کو تنخواہ نہیں دے سکتی تو ایڈہاک ملازمین کے مستقبل کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں؟ کہا جاتا ہے کہ یونیورسٹیاں اپنے عارضی کلاس فور ملازمین کو فارغ کرنے پر تلی ہوئی ہیں حالانکہ تنخواہوں مراعات اور سہولیات میں یونیورسٹی اساتذہ اور افسران اور غریب درجہ چہارم ملازمین میں کوئی موازنہ ممکن نہیں۔