تحفظ ماحول: لائحہ عمل

تحفظ ماحول کی عالمی کوششوں کا جائزہ لینے اُور مستقبل کا لائحہ عمل تشکیل دینے کے لئے  ’سی او پی 29‘ نامی اجلاس گیارہ سے بائیس نومبر ’باکو‘ میں منعقد ہو رہا ہے جس میں ترقی یافتہ اُور ترقی پذیر ممالک کے نمائندے ایک ایسے پیچیدہ مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایک مرتبہ پھر سر جوڑ کر بیٹھیں گے جس کا تعلق انفرادی کوششوں سے نہیں بلکہ اجتماعی تعاون سے ممکن ہے اُور یہی وجہ ہے کہ تحفظ ماحول کے لئے ترقی پذیر ممالک کی مالی مدد کرنا اِس مرتبہ اجلاس کا عنوان رکھا گیا ہے۔ سال 2022ء کی بات ہے جب پاکستان نے شرم الشیخ میں ”سی او پی  27“ نامی اجلاس میں گلوبل ساؤتھ کے ممالک کی قیادت کرتے ہوئے ترقی یافتہ ممالک پر زور دیا تھا کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کی امداد کے لئے مستقل فنڈ قائم کریں اُور تب سے پاکستان اپنے اِس مؤقف کو بار بار دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے۔ تحفظ ماحول کی کوششوں کے لئے کھربوں ڈالرز درکار ہیں۔گرین فنڈنگ ابھی بھی حسب ضرورت میسر نہیں آئی ہے کیونکہ بہت سے ڈونر ممالک کی جانب سے اِس حوالے سے کئے جانے والے وعدوں کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا ہے۔ مثال کے طور پر، تحفظ ماحول سے ہوئے نقصانات کے لئے قائم کردہ فنڈ کے لئے 770ملین ڈالر دینے کا وعدہ کیا گیا جبکہ صرف پاکستان جیسے ممالک کو 2022ء میں موسمیاتی تبدیلی سے پیش آئی تباہی کی وجہ سے 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ ورلڈ بینک کے مطابق 2030ء تک پاکستان کو 348 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کی مدد کے وعدے پورے نہیں ہو رہے اُور اِس حوالے سے ایک بار پھر مذاکرات کئے جائیں گے چونکہ یہ ایک ’امپیئرنگ امبیشن‘ اور ’ایبلنگ ایکشن‘ ہے لہٰذا توجہ این ڈی سی اور فنانسنگ پر ہوگی۔ ممالک سے کہا جائے گا کہ وہ پرعزم، جامع اور مضبوط این ڈی سیز، نیشنل ایڈاپٹیشن پلانز اور دو سالہ ٹرانسپیرنسی رپورٹس پیش کریں۔ اس وقت، تقریبا 75 فیصد ریاستوں نے ماحول کو آلودہ کرنے والی گیسوں کے اخراج کا صفر ہدف مقرر کیا ہے، جو عالمی جی ڈی پی کا 98 فیصد اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا 88 فیصد بنتا ہے، پھر بھی مضر ماحول گیسوں کا عالمی اخراج 2030ء کی ڈیڈ لائن تک 10فیصد سے زیادہ بڑھ رہا ہے، جو موسمیاتی تبدیلی کے محاذ پر ترقی پذیر ممالک کے لئے فیصلہ کن دہائی ہو گی۔عالمی سطح پر، آب و ہوا سے متعلق اقدامات کے لئے فنڈز کی کمی حیران کن ہے اُور اِس متعلق اعداد و شمار بھی پیچیدہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق 2050ء تک کاربن کے اخراج کو صفر تک لانے (کم کرنے) کے لئے عالمی سطح پر 125 کھرب ڈالر خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ آب و ہوا سے مطابقت کے لئے، جو ممکنہ طور پر ترقی پذیر ممالک کے لئے دہائی سے زندہ رہنے کا واحد راستہ ہے، ترقی یافتہ ممالک اکثر اس پیمانے اور اہمیت کو نظر انداز کرتے ہیں۔ موجودہ صورتحال دیکھی جائے تو گلوبل وارمنگ میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے، دنیا کو 2030ء تک زیادہ سے زیادہ 340 ارب ڈالر سالانہ خرچ کرنے کی ضرورت ہوگی، جو 2050ء تک 565 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ یو این ایف سی کی پہلی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صرف 78 ترقی پذیر ممالک کو اپنے این ڈی سی کو پورا کرنے کے لئے 6.8 کھرب ڈالر کی ضرورت ہے۔اقوام متحدہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ دنیا کا درجہئ حرارت میں تین ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہو سکتا ہے جو تباہ کن اثرات لائے گا اُور پاکستان موسمیاتی اثرات کے براہ راست نشانے پر ہے۔ ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن گروپ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بڑے پیمانے پر آئے سیلاب کا واضح طور پر تعلق آب و ہوا (موسمیاتی) تبدیلی سے ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر شیری رحمان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

موسمیاتی تبدیلیوں سے صرف مالی ہی نہیں بلکہ جانی نقصانات بھی ہو رہے ہیں اُور اقوام متحدہ کے ایک مطالعے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کو جنوبی ایشیا اور جنوب مغربی ایشیائی خطوں میں موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے اُور اگر موسمیاتی تبدیلیوں کو اجتماعی ذمہ داری نہ سمجھا گیا تو پاکستان کو بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس میں اِس کی جی ڈی پی کا خسارہ سالانہ 9.1 فیصد تک پہنچ جائے گا۔ اِس خسارے کے تناظر میں، پاکستان کو اپنی قومی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے زیادہ مالی وسائل موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لئے خرچ کرنے چاہیئں اُور 2030ء تک گرین ہاؤس گیسوں کو پچاس فیصد تک کم کرنے کے لئے کوششیں تیز کرنی چاہیئں۔ پاکستان کو عالمی جنوبی ریاستوں اور اتحادیوں کا اجلاس بلانا چاہئے تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے عالمی اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔