آخر رکاوٹ کیا ہے؟

ایک وقت تھا کہ صوبے کی تمام یونیورسٹیاں مجریہ1974ء ایکٹ کے  تحت بہتر طور پر چل رہی تھیں‘ ہر چند کہ اس وقت جامعہ پشاور سمیت یونیورسٹیوں کی تعداد محض چار تھی مگر پشاور اور گومل جیسی جنرل یونیورسٹیوں کیساتھ ساتھ زرعی اور انجینئرنگ  جیسی پروفیشنل یونیورسٹیوں کے انتظام و انصرام میں بھی کوئی مشکل درپیش نہ تھی بعدازاں جب صوبے کی ایک مخلوط حکومت نے نہ جانے کیونکر اچھے بھلے ایکٹ میں ترامیم کی ضرورت محسوس کی اور یوں ایکٹ کا حلیہ کچھ یوں بگاڑ دیا کہ پشاور یونیورسٹی کے ٹیچرز خاموش نہ رہ سکے تو سرکار نے مادر علمی کے اساتذہ کی آواز اور ردعمل پر ایکٹ میں کی گئی ترمیم کو قدرے واپس لیتے ہوئے کسی حد تک قابل قبول اور قابل عمل تو بنادیا لیکن کیا کہیں کہ مجریہ  2016ء کے نظرثانی شدہ ماڈل ایکٹ نے جامعات کی خودمختاری کو دفن کرکے رکھ دیا محض اس پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ رہی سہی کسر پوری کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا لیکن جامعات کی مزاحمت کے سبب مزید”تبدیلی“ ادھوری رہ گئی‘ اب اسی ایکٹ کے تحت نہ صرف صوبے کی19جامعات میں وائس چانسلر کی خالی پوزیشن کو مشتہر کیا گیا بلکہ بیوروکریٹس اور حاضر سروس اور ریٹائرڈ اساتذہ پر مشتمل ٹاسک فورس کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جس کی رپورٹ حکومت کو پیش کی گئی ہے لیکن عملدرآمد کی منتظر کہیں پڑی ہوگی۔ اگرچہ 19یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی تقرری کو سرچ کمیٹی کے توسط سے مشتہر کیا گیا تھا مگر یہ تعداد اب25 سے بھی آگے نکل گئی ہے۔ یہاں تک کہ قدیم درسگاہ اسلامیہ کالج‘ جامعہ پشاور اور انجینئرنگ یونیورسٹی میں بھی عرصہ سے مستقل وائس چانسلر کی تقرری بلاوجہ لٹکی ہوئی ہے‘ المیہ تو یہ ہے کہ ان سطور کے لکھنے تک اسلامیہ کالج اور انجینئرنگ میں پرو وائس چانسلر بھی نہیں تھے‘ مطلب تمام تر امور معطل ہو کر رہ گئے ہیں‘حکومتی اداروں سمیت جامعات کے نظام اورقواعد وضوابط کی آگہی رکھنے والے شخص کیلئے یہ بات معمہ نہیں کہ قانون  کے تحت یونیورسٹی کے تعلیمی تحقیقی اور انتظامی امور اور اخراجات کیلئے وائس چانسلر سے منظوری لازمی ہوتی ہے‘ صوبے کی  یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر کی تقرری کیلئے اس وقت کی سرچ کمیٹی نے اپنا کام مکمل کرکے فائل فروری میں حکومت کے حوالے  کردی مگر شومئی قسمت کہ حکومت نے یہ عجیب و غریب موقف بلکہ منطق اپناتے ہوئے مذکورہ فائل کو ایک طرف رکھ دیا کہ چونکہ یہ پراسس عبوری یا قائمقام حکومت کے وقت کا ہے لہٰذا اس عمل کو ازسر نو شروع کرنا ہوگا‘ خیر حکومتی موقف کے خلاف جب وائس چانسلر شپ کے امیدواروں نے عدالت سے رجوع کیا تو حکومتی موقف کو مسترد کرتے ہوئے سرچ کمیٹی کی فائنل لسٹ سے تقرری عمل میں لانے کی ہدایت کی گئی مگر وہ بھی تاحال عمل درآمد کی منتظر ہے؟ لہٰذا اب مسئلہ یہ ہے کہ جہاں پرپرووائس چانسلر موجود ہیں تو2016ء ماڈل ایکٹ کے تحت تو وہ قائمقام وائس چانسلر کے طور پر ذمہ داری نبھاتے ہوئے جامعہ کے امور چلا رہے ہیں لیکن جہاں پروائس چانسلر اور پرووائس چانسلر دونوں نشستیں خالی پڑی ہیں‘ وہاں پر یونیورسٹی چلانے کا کیا ہوگا؟ جواب طلب سوال تو یہ ہے کہ جب سرچ کمیٹی نے قواعد کے تحت سارے عمل کو مکمل کرکے ہر یونیورسٹی کیلئے تین نام مجاز اتھارٹیز کو بھجوا دیئے ہیں تو پھر تقرری کی راہ میں کونسی مشکل کونسی رکاوٹ حائل ہے؟ ویسے سنجیدہ بہی خواہ لوگوں کی یہ بات قابل غور لگتی ہے کہ یونیورسٹیاں بالخصوص خیبر پختونخوا کی جامعات اور وہ بھی پرانی جس طرح مالی ابتری کے ہاتھوں کہیں کی نہیں رہیں یہ خدشہ بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتاکہ بہت جلد انتظامی طور پر بھی یکسر مفلوج ہو کر رہ جائیں گی۔ سنجیدہ حلقوں کے مطابق تعلیم کے بارے میں اس قدر غیر سنجیدگی اور عدم دلچسپی سمجھ سے بالا تر ہے۔