کورونا کے سبب جو لاک ڈاو¿ن کی بات چلی تو یہ سمارٹ لاک ڈاو¿ن تک پہنچی۔ اس لاک ڈاو¿ن کا سب سے زیادہ نقصان تعلیمی اداروں اورطلبا کا ہوا۔ نجی تعلیمی اداروں کی ایک بڑی تعداد تو یہ دورانیہ برداشت ہی نہ کر سکی اور انہوں نے تو ہاتھ اٹھا لئے اور ادارے بند کر دیئے ۔ اس لئے کہ یہ ادارے ایک تو کرائے کی عمارتوں میں کھلے تھے اور دوسرے ان کو فیسیں لینے کی اجازت بھی نہیں تھی اسلئے ان کے مالکان سے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ بلڈنگوں کے کرائے بھی ادا کریں ، سٹاف کو تنخواہیں بھی دیں اور فیسیں بھی نہ وصول کریں۔ اس لئے انہوں نے خیریت اسی میںجانی کہ اس ” کاروبار “ سے توبہ ہی کر لیں۔ اس سے جو ان طلباءکا نقصان ہوا جو ان اداروں میں زیر تعلیم تھے اس کا کون حساب دے گا۔ اب بھی لگتا ہے کہ تعلیمی ادارے کھل نہیں پائیں گے اس لئے کہ سیاحوں کو جو کھل کھیلنے کی اجازت ملی تو اس دوران میں جو بے احتیاطیاں ہوئیں ان سے کو رونا کو اپنے پر پھیلانے کاموقع ملا ۔ اب جو یہ فیصلہ ہو ا کہ پندرہ ستمبر سے ادارے کھلیں گے اور اس کا حتمی فیصلہ سات ستمبر کو ہو گا۔ اگر حالات ٹھیک نہ ہوئے تو یہ تاریخ آگے بھی کی جا سکتی ہے اب صورت حال یہ ہے کہ کے پی کے میں زیادہ اداروں کا تعلق سردیوں کے مقامات سے ہے اور ان اداروں کا چودہ دسمبر کے بعد تک کھلے رہناممکن نہیں اس لئے کہ گلیات، سوات، دیر، کاغان، چترال اور ایسے دیگر علاقوں کے تعلیمی ادارے کہ جہاں سخت سردی پڑتی ہے ان کو پندرہ دسمبر اور بعض جگہوں پر یکم دسمبر کے بعد اور یکم مارچ اور بعض جگہوںپر پندرہ مارچ تک ان کا کھلنا ممکن نہیں ہو گا۔
تو ایسے اداروں کے طلباءکاکیا بنے گا اس لئے کہ ان کو امتحان کی تیاری کے لئے اور نصاب کو مکمل کرنے کے لئے دو ماہ بھی پورے نہیں مل رہے۔ ایسے میں کون نصاب کو مکمل پڑھ سکے گا اور کہاں بچے امتحان کےلئے تیا رہو سکیں گے۔ ہمارے صاحبان اقتدار جو سوچ رہے ہیں وہ صرف میدانی سکولوں کاسوچ رہے ہیں کہ جہاں ستمبر سے اپریل تک سکول کھلے رہ سکتے ہیں ۔ ان بچوں کے نصاب بھی مکمل کئے جا سکتے ہیںاور ان بچوں کو امتحان کے لئے بھی تیار کیا جا سکتا ہے مگر جن اداروں کو صرف آدھا مہینہ ستمبر کا ، ایک مہینہ اکتوبر کا اور آدھا مہینہ دسمبر کا ملے گا یعنی نصاب کی تکمیل اور امتحان کی تیا ری کے لئے صرف دو ماہ ملیں گے ان کا کیا بنے گا۔ کیا کسی بھی طرح یہ ممکن ہو سکے گا کہ اساتذہ دو ماہ میں ایک سال کا کورس مکمل کر سکیں گے۔ اور کیا طلبا ءدو ماہ میں نصاب پورا پڑھ کر امتحان پاس کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ لگتا یہ ہے کہ جتنے بھی مشورے آج تک کئے گئے ہیں وہ صرف اُن لوگوں کے ساتھ کئے گئے ہیں جن کا تعلق گرمیوں کے اداروں سے ہے ۔ ان لوگوں کو سردیوں والے ادروں کی مشکلات کا کوئی علم ہی نہیں ہے ۔ ان علاقوں کے اداروں کا حال تو یہ ہے کہ ان میں اکثر سرکاری سکولوں کی اپنی عمارتیں ہی نہیں ہیں اور جو ایک ایک دودو کمروں کے سکول ہیں بھی وہاں بچے باہر کھلی جگہوں پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان اداروں کا پندرہ دسمبر کے بعد اور پندرہ مارچ سے قبل کھلنا ممکن ہی نہیں ہے اگر ان کو کھولتے ہیں۔
تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان سارے بچوں کو ہم نمونیے کے حوالے کر دیں ۔ اسی لئے انگریز نے ان علاقوں کے تعلیمی اداروںکےلئے جنوری فروری اور نصف مارچ تک چھٹیوں کا شیڈول رکھاہے۔ اب یہ تو ہو نہیںسکتا کہ ان علاقوں کے اداروں کو ان مہینوں میں کھلا رکھا جا سکے۔ اس لئے اب یہ مشکل سارے ہی لوگوں کو درپیش ہے کہ جو ان سرد علاقوںمیں رہتے ہیں۔ اب جو سات ستمبر کو وزیر تعلیم کی میٹنگ ہے اس میں اس مشکل کو بھی پیش نظر رکھا جائے اور خصوصاً ہم ان علاقوں سے متعلق تعلیمی افسران سے گذارش کریں گے کہ اس کا بھی کوئی حل نکالیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ تعلیم سے وابستہ مسائل پر کسی نے توجہ دینے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان مسائل میں اضافہ ہوا ہے اب ایسے حالات میں کہ جب کورونا وباءکے بعد تعلیمی اداروں کے دوبارہ کھولنے پر غور ہورہا ہے تو اس میں پورے ملک کی آبادی کا خیال رکھا جائے۔ گرم وسرد دونوں علاقوں میں سکولوں کی چھٹیاں الگ شیڈول پرہوتی ہیں اس لئے اس فرق کو مدنظر رکھنا ضروری ہے تاکہ بچوں کا جو وقت ضائع ہوچکاہے اس کی تلافی ممکن ہوسکے۔